خواہش کو مہمان کرو گے
اپنا ہی نقصان کرو گے
ساری بستی مرنا چاہے
کس کس پر احسان کرو گے!
اب کس کی باری ہے صاحب!
اب کس کو حیران کرو گے؟
کب تک اور پرکھنا ہم کو
کب تک اطمینان کرو گے
مَیں تو مٹّی ہو جائوں گا
تم کیا میری جان کرو گے؟
جو بھی کام کرو گے سیفی!
خارج اَز اِمکان کرو گے
…………………………..
مجموعہ کلام: الست
کاغذی پیرہن، لاہور
اکتوبر ۲۰۰۴ء