منطقیں لاکھ اُٹھا لائو خرد خانے سے
آئنہ بات سمجھتا نہیں سمجھانے سے
ہجرتِ خانہ بدوشاں بھی کوئی ہجرت ہے
ہم تو ویرانے میں آئے کسی ویرانے سے
زندگی ہم تجھے سانسوں میں گنا کرتے ہیں
ماپتے کب ہیں مہ و سال کے پیمانے سے
بوکھلا جاتے ہیں تھوڑی سے پریشانی میں
کام کچھ اور بگڑ جاتا ہے گھبرانے سے
ہجرت و ہجر کا جب باب مکمل ہو گا
میرا کردار نکل جائے گا افسانے سے