دیکھتے ہو کیا چشمِ حیرت سے
میں ہوں زندہ ، خدا کی رحمت سے
اک دیا بھی بجھا سکی نہ ہوا
چل رہی تھی بڑی رعونت سے
سوئے صحرا قدم نہیں اٹھتے
دل بھی اکتا گیا محبت سے
میری بستی میں ، شام کا منظر
کم نہیں ہے کسی قیامت سے
ان فقیروں سے بھی کبھی تو مل
مل کے دیکھا ہے اہلِ دولت سے
آبِ زر کو جو آبِ زر جانیں
باز آتے ہیں کب نصیحت سے؟
پوچھنے کا ، بھلا تکلف کیوں
توُ ، تو واقف ہے حالِ شوکت سے