عطاء الرحمن قاضی ۔۔۔ ساعتِ ہجر کو ارژنگ نوائی دے گا

ساعتِ ہجر کو ارژنگ نوائی دے گا
وہ اگر ہے اسی منظر میں دکھائی دے گا

اب گلابی میں کہاں جلوۂ گلزارِ ارم
رند تڑپیں گے ہر اک جام دہائی دے گا

خلوتِ ناز سے دوری نے رکھا گرمِ سفر
مر ہی جاؤں گا اگر مجھ کو رسائی دے گا

دے رہا ہے جو نمو زخم کو ، اک روز وہی
دیکھنا ، مرہمِ گریہ مرے بھائی دے گا

جھانکتا ہے یہ جو مہتاب کسی غرفے سے
نیلمیں شام کو ساغر سے رہائی دے گا

زخمہ ور ، چھیڑ! رگِ جان بہ مضرابِ غزل
گیت گم گشتہ زمانوں کا سنائی دے گا

کج کلاہوں سے عطاؔ چھین کے اک روز یہ دل
خرقہ پوشوں کو سب اسرارِ خدائی دے گا

Related posts

Leave a Comment