نہیں ہے مشکل کوئی بھی سچ کے بیان جیسی
یقیں کے لہجے میں لکنتیں ہیں گمان جیسی
زمین سے پیش آﺅں کس طرح کجروی سے
کہاں سے لاﺅں میں گردشیں آسمان جیسی
بہت ہی ضدی انا ہے کب ہار مانتی ہے
لُٹے ہوئے اک نواب کی آن بان جیسی
لہو میں اب بھی کبھی مچلتی ہے کوئی خواہش
عذابِ ہجرت میں کٹ چکے خاندان جیسی
اُسے چھوا تو بدن میں اک کپکپی سی جاگی
کسی پرندے کی پہلی پہلی اڑان جیسی
ابھی بھی یادوں کے طاق سے تیر مارتی ہے
کَسی ہوئی قوس اک بدن کی کمان جیسی
نہال رکھتی ہیں دشتِ غربت کی بے کسی میں
وُہ غمزدہ آنکھیں موتیوں کی دکان جیسی
خیالِ وحشت کی دشت پرور کشادگی سے
غزل ابھرتی ہے کاغذوں پر مکان جیسی