زندگی بھر خزاؤں میں رہنا
کس لیے بے وفاؤں میں رہنا
جا رہا ہوں ترے نگر سے، مجھے
اب نہیں ان خداؤں میں رہنا
مار ڈالے گی غم کی ارزانی
کم کرو انتہاؤں میں رہنا
یہ غزل آخری سمجھ کے سنو
اور سیکھو بلاؤں میں رہنا
اچھا لگتا ہے، ہر گھڑی ناصر
یوں کسی کی دعاؤں میں رہنا
Related posts
-
قمر جلالوی ۔۔۔ جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم
چھوٹ سکتے ہی نہیں طوفان کی مشکل سے ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو
چھلک پڑے جو، سُجھاؤ نہ عرض و طول اُس کو جو بے اصول ہو، کب چاہئیں... -
غلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی...