زندگی بھر خزاؤں میں رہنا
کس لیے بے وفاؤں میں رہنا
جا رہا ہوں ترے نگر سے، مجھے
اب نہیں ان خداؤں میں رہنا
مار ڈالے گی غم کی ارزانی
کم کرو انتہاؤں میں رہنا
یہ غزل آخری سمجھ کے سنو
اور سیکھو بلاؤں میں رہنا
اچھا لگتا ہے، ہر گھڑی ناصر
یوں کسی کی دعاؤں میں رہنا
Related posts
-
اختر شمار ۔۔۔ خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں
خبر نہیں کہ ملیں ہم زباں کہیں نہ کہیں ہماری ہو گی مگر داستاں کہیں نہ... -
زبیر فاروق ۔۔۔ اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا
اُس کے دل نے بھی کچھ کہا ہو گا غیر نے جو کہا سنا ہو گا... -
عباس علی شاہ ثاقب ۔۔۔۔ ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو
ہمارے شہر کے سُقراط دیکھو جہالت کی یہاں افراط دیکھو فسادی ہاتھ میں قانون سازی علم...