سفرِ شام نے رہ رہ کے ڈرایا مجھ کو
جی اُٹھے سنگ و شجر دیکھ کے تنہا مجھ کو
بڑھ کے احباب سے آنکھیں تو کھلی رکھتا ہوں
جانے کیوں خواب نظر آتی ہے دنیا مجھ کو
چودھویں شب کے طلسمات بھی ہوتے ہیں عجیب
سایۂ شاخ لگا شاخ سے اچھا مجھ کو
بہہ گئی عمرِ رواں آبِ رواں کی صورت
اور مرے عکس سے تکتا رہا دریا مجھ کو
خاک کے پار کا منظر بھی جھلکتا ہے، مگر
بار دیتا ہی نہیں خاک کا پردا مجھ کو
زور کرتی ہے جو نسبت ہو کسی سے خورشیدؔ!
شہر میں جا کے بلا لائے گا صحرا مجھ کو