بس ایک رات مرے گھر میں چاند اُترا تھا
پھر اس کے بعد وہی مَیں، وہی اندھیرا تھا
صبا کا نرم سا جھونکا تھا یا بگولا تھا
وہ کیا تھا جس نے مجھے مدتوں رُلایا تھا
عجب اُٹھان لیے تھا وہ غیرتِ شمشاد
تباہ حال دلوں کا کہاں ٹھکانہ تھا
اندھیری شام تھی، بادل برس نہ پائے تھے
وہ میرے پاس نہ تھا اور مَیں کھل کے رویا تھا
زمیں میں دفن مجھے کر گیا ہے جیتے جی
تو کیا مَیں اُس کے لیے قیمتی خزینہ تھا
جھلس جھلس کے مَیں انجامِ کار ڈوب گیا
وہ تھا سراب مگر پانیوں سا گہرا تھا
نشاں کہیں بھی نہ تھے اُس کی انگلیوں کے، مگر
مَیں، گھر کی دیکھ کے ایک ایک چیز رویا تھا
جلے تو ساتھ جلیں گی یہ جھاڑیاں اظہار
کسی کے شہر میں تو درد یوں نہ بٹتا تھا