سلام بحضور امام عالی مقام…… نصیر ترابی

یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لے کے آ
یہاں چشمِ تر کا رواج ہے ، دلِ خونچکاں ہو تو لے کے آ

یہ فضا ہے عنبر و عود کی، یہ محل ہے وردِ درود کا
یہ نمازِ عشق کا وقت ہے، کوئی خوش اذاں ہو تو لے کے آ

یہ جو اک عزا کا شعار ہے، یہ عجب دعا کا حصار ہے
کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لے کے آ

یہ نشہ ہے اہلِ دلیل کا ، یہ عَلم ہے حق کی سبیل کا
کہیں اور ایسی قبیل کا، کوئی سائباں ہو تو لے کے آ

یہ حضور و غیب کے سلسلے، یہ مدار فکر کے مرحلے
غمِ رائیگاں کی بساط کیا، غمِ جاوداں ہو تو لے کے آ

سرِ لوحِ آب لکھا ہوا، کسی تشنہ مشک کا ماجرا
سرِ فردِ ریگ لکھی ہوئی، کوئی داستاں ہو تولے کے آ

ترے نقشہ ہائے خیال میں، حدِ نینوا کی نظیر کا
کوئی اور خطۂ آب و گل، تہہِ آسماں ہو تو لے کے آ

کبھی کُنجِِ حُر کے قریب جا، کبھی تابہ صحنِ حبیب جا
کبھی سوئے بیتِ شبیب جا، کوئی ارمغاں ہو تو لے کے آ

مرے شرق و غرب کی خیر ہو کہ سفر ہے دجلۂ دہر کا
کہیں مثلِ نامِ حسینؑ بھی، کوئی بادباں ہو تو لے کے آ

میں وہ حال ہوں کہ بحال ہوں ، مرے فرق فر پہ گلاب رکھ
میں صراطِ حر کا غلام ہوں،کوئی ہفت خواں ہو تو لے کے

نہ انیس ہوں نہ دبیر ہوں، میں نصیر صرف نصیر ہوں
مرے حرفِ ظرف کو جانچنے، کوئی نکتہ داں ہو تو لے کے آ

Related posts

Leave a Comment