آدمی نامہ ۔۔۔۔۔ نظیر اکبر آبادی

آدمی نامہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں بادشا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
زردار، بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
نعمت جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی
ٹکڑے جو مانگتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

ابدال و قُطب و غوث و وَلی، آدمی ہوئے
مُنکِر بھی آدمی ہوئے اور کُفر کے بھرے
کیا کیا کرشمے، کشف و کرامات کے کیے
حتیٰ کے اپنے زہد و ریاضت کے زور سے
خالق سے جا ملا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

فرعون نے کیا تھا جو دعوا خدائی کا
شداد بھی بہشت بنا کر ہوا خدا
نمرود بھی خدا ہی کہاتا تھا بر ملا
یہ بات ہے سمجھنے کی، آگے کہوں مَیں کیا
یاں تک جو ہو چکا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی نار ہے، اور آدمی ہی نور
یاں آدمی ہی پاس ہے، اور آدمی ہی دور
کُل آدمی کا حُسن و قبح میں ہے یاں ظہور
شیطاں بھی آدمی ہے، جو کرتا ہے مکر و زُور
اور ہادی، رہنما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی، امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی، قرآں اور نماز، یاں
اور آدمی ہی اُن کی چراتے ہیں جوتیاں
جو اُن کو تاڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی ہی تیغ سے مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اُتارے ہے آدمی
چِلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
اور سُن کے دوڑتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

چلتا ہے آدمی ہی، مسافر ہو، لے کے مال
اور آدمی ہی مارے ہے، پھانسی گلے میں ڈال
یاں آدمی ہی صید ہے ، اور آدمی ہی جال
سچا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے لال
اور جھوٹ کا بھرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی نقیب ہو، بولے ہے بار بار
اور آدمی ہی پیادے ہیں، اور آدمی سوار
حقہ ، صراحی، جوتیاں دوڑیں بغل میں مار
کاندھے پہ رکھ کے پالکی، ہیں آدمی کہار
اور اس پہ جو چڑھا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

بیٹھے ہیں آدمی ہی، دکانیں لگا لگا
کہتا ہے کوئی لو، کوئی کہتا ہے، لا رے لا
اور آدمی ہی پھرتے ہیں، رکھ سر پہ  خوانچا
کس کس طرح سے بیچے ہیں، چیزیں بنا بنا
اور مول لے رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

طبلے ، منجیرے، دائرے، سارنگیاں بجا
گاتے ہیں آدمی ہی ہر اک طرح جا بہ جا
رنڈی  بھی آدمی ہی نچاتے ہیں گت لگا
وہ آدمی ہی ناچے ہیں اور دیکھو یہ مزا
جو ناچ دیکھتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی ہی لعل، جواہر ہے بے بہا
اور آدمی ہی خاک سے بد تر ہے ہو گیا
کالا بھی آدمی ہے کہ   اُلٹا ہے جُوں توا
گورا بھی آدمی ہے کہ ٹکڑا سا چاند کا
بد شکل و بد نما ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک آدمی ہیں جن کے یہ کچھ زرق برق ہیں
روپے کے ان کے پائوں ہیں، سونے کے فرق ہیں
جھمکے تمام غرب سے لے  تا بہ شرق ہیں
کمخواب، تاش، شال، دوشالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اک ایسے ہیں کہ جن کے بچھے ہیں نئے پلنگ
پھولوں کی سیج ان پہ جھمکتی ہے تازہ رنگ
سوتے ہیں لپٹے چھاتی سے معشوقِ شوخ و شنگ
سو سو طرح سے عیش کے کرتے ہیں رنگ ڈھنگ
اور خاک میں پڑا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

حیراں ہوں، یارو! دیکھو تو یہ کیا سوانگ ہے
آپ آدمی ہی چور ہے، اور آپھی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی، اور کہیں مانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثلِ رانگ ہے
فولاد سے کڑا ہے ، سو ہے وہ بھی آدمی

مرنے میں آدمی ہی  کفن کرتے ہیں تیار
نہلا دُھلا اٹھاتےہیں کاندھے پہ کر سوار
کلمہ بھی پڑھتے جاتے ہیں، روتے ہیں زار و زار
سب آدمی ہی کرتے ہیں، مُردے کا کاروبار
اور وہ جو مر گیا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

اشراف اور کمینے سے لے، شاہ تا وزیر
ہیں آدمی ہی صاحبِ عزت بھی اور حقیر
یاں آدمی مرید ہیں اور آدمی ہی پِیر
اچھا بھی آدمی ہی کہاتا ہے اے نظیر!
اور سب میں جو بُرا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( انتخابِ نظیر اکبر آبادی: مجلسِ ادارت: رشید حسن خاں، صدیق الرحمن قدوائی، ضیاء الحسن فاروقی، ڈاکٹر قمر رئیس، مالک رام، ڈاکٹر محمد حسن، غلام ربانی تاباں

مارچ ۱۹۸۵ء: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی)

Related posts

Leave a Comment