مسجدِ قرطبہ ۔۔۔۔ علامہ اقبال

مَسجدِ قُرطُبہ
(ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قُرطُبہ لکھی گئی)
…………
سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات

سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب، صیرفیِ کائنات
تو ہو  اگر کم عیار، مَیں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں بے ثبات!

اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نَو، منزلِ آخر فنا

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد ِخدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سَیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود اک سَیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام

عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات

اے حَرَمِ قُرطُبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
قطرۂ خونِ جگر سل کو بناتا ہے دل
خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کی کشود
عرش معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہرِ کبود
پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں سوز و گدازِ سجود
کافرِ ہندی ہوں مَیں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلٰوۃ و درود، لب پہ صلٰوۃ و درود

شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ اَللہ ھو، میرے رگ و پَے میں ہے

تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
تیری بِنا پائدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل
تیرے در و بام پر وادیِ اَیمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گِہ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم و خلیل
اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفُق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج، دجلہ و دنیوب و نِیل
اس کے زمانے عجیب، اس کے فسانے غریب
عہدِ کہن کو دیا اس نے پیامِ رحیل
ساقیِ اربابِ ذوق، فارسِ میدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل

مردِ سپاہی ہے وہ، اس کی زِرہ لا اِلہ
سایۂ شمشیر میں اس کا پنہ لا اِلہ

تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپِش، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا، کارساز
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دِل فریب، اس کی نگہ دِل نواز
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
نقطۂ پَرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز

عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ

کعبۂ اربابِ فن! سطوتِ دینِ مُبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
ہے تہِ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے، اَور نہیں ہے کہیں
آہ وہ مردان حق! وہ عرَبی شہسوار
حاملِ خلُقِ عظیم، صاحبِ صدق و یقیں
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے، شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب
ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خِرد  راہ بیں
جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں

بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے

دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!
دیکھ چکا المنی، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کہن کے نشاں
حرفِ غلط بن گئی عصمتِ پیرِ کُنِشت
اور ہوئی فکر کی کشتیِ نازک رواں
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دِگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
ملتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پِیر
لذتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں

دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!

وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت
کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات، کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

Related posts

Leave a Comment