غزل ۔۔۔۔ میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں
جگ میں کس کا کون ہوا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

من مورکھ ہے‘ مت سمجھائو‘ کرنی کا پھل پائے گا

چڑھتا دریا کب ٹھہرا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

تم تو اب بھی مجھ سے پہروں دھیان میں باتیں کرتے ہو

ترکِ تعلق کیا ہوتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

جانے والے‘ حد یقیں تک ہم نے جاتے دیکھے ہیں

واپس لوٹ کے کون آتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

میں سوچوں کی جلتی دھوپ اور وہ تسکین کی گہری چھائوں

میرا اس کا ساتھ ہی کیا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

اک تجھ پر ہی کیا موقوف کہ سب ہی پیٹ کے ہلکے ہیں

کس کا ظرفِ دل گہرا ہے؟ سب کہنے کی باتیں ہیں

احمدؔ اس کا چہرہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھاتا ہے

تیرے دُکھ میں وہ رویا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

Related posts

Leave a Comment