جمیلہ ہاشمی
جمیلہ ہاشمی ۱۷؍ جنوری ۱۹۲۹ء کے روز امرتسر (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئیں۔تقسیمِ ہند کے بعدساہیوال میں آ کر آباد ہوئیں۔اُن کے افسانوی مجموعے ’’اپنا اپنا جہنم‘‘ میں تین افسانے زہر رنگ، لہو رنگ اور شبِ تار رنگ شامل ہیں۔ اپنا پنا جہنم کو ناولٹ بھی کہا جاتاہے۔ اِس کے علاوہ آپ بیتی جگ بیتی اور رنگ بھوم شامل ہیں۔اُن کے افسانوں کی چند اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:سماجی شعور میں وسعت،شہروں اور دیہاتوں میں پرورش پانے والے کرداروں کی ذہنی کیفیات، مسائل اور الجھنوں کا بیان،جنسی موضوعات جو اپنی پیش کش میں عصمت کے اسلوبِ بیاں سے مختلف ہیں،اُن کے ہاں معروضیت کے ساتھ موضوعیت بھی نمایاں ہیں کہ زیادہ تر کردار حقیقی محسوس ہوتے ہیں اور وہ خود بھی کہیں نہ کہیں اپنے افسانوں میں در آتی ہیں اور ماضی بھی اُن کی تخلیقات کا اہم ترین محرک ہے ۔
انہوں نے بلا شبہ نے اُردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔وہ تاریخِ ادب کی چند فکشن نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے تاریخی ناول بھی لکھے۔ ان کے پہلے ناول ’تلاش بہاراں‘‘ ۱۹۶۱ سے انہیں مقبولیت حاصل ہوئی۔ایل دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ ممتاز مفتی کے ناول علی پور کا ایلی اور جمیلہ ہاشمی کا ناول تلاش بہاراں دونوں کو آدم جی انعام کے لیے مقابلے میں رکھا گیا اور انعام کا مستحق تلاش بہاراں کو قرار دیا گیا۔ تلاش بہاراں کی پوری فضا اس دور میں لکھے جانے والے اکثر ناولوں کی طرح آزادی اور تقسیم وطن ہے۔ یہ ناول آزادی سے کچھ پہلے کے زمانے کو پیش کرتا ہے اور تقسیم سے پہلے کی ہندو مسلم مشترکہ تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتا ہے۔ اس اعتبار سے ناول کا موضوع جنگ آزادی اور تقسیم ہند پر مبنی ہے۔ پروفیسر عبدالسلام نے اپنے مضمون میں اس کتاب کے نام کی اِس بنیاد پر تعریف کی ہے کہ آزادی کے متوالوں نے اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر آزادی کے جو خواب دیکھے تھے اس کی تعبیر فرقہ وارانہ فسادات تھے جو اعلان آزادی کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں پھیل گئے کہ اتنی قربانیوں کا ما حاصل یہی بہارنہ تھی جس کی تلاش میں پوری ایک صدی صرف ہو گئی۔ مصنفہ نے اپنے تجربات اور مشاہدات اور روشن خیالی کا پورا ثبوت دیا ہے۔ اس ناول کے تمام کردار ہندو ہی نظر آتے ہیں۔ مرکزی کردار کنول کماری کی ذات ہے جو مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر عصمتوں کو بچاتے ہوئے اپنی جان دے دیتی ہے۔ انہوں نے در اصل اپنی سوچ کی عکاسی کے لیے یہ کردار تخلیق کیا اور بتایا کہ سماج نے لوگوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی ہے، اب لوگ خاندانوں کی بجائے فرد فرد ہو گئے ہیں۔ جمیلہ ہاشمی تقسیم وطن کو غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویہ قرار دیتی ہیں اور اس کی پوری ذمہ داری ہندو مسلم سادہ لوح انسانوں پر نہیں ڈالتی ہیں۔ ہندوستانی لوگوں میں نفرت و نفاق کا زہر پھیلانے کی تمام ذمہ داریاں غیرملکی قوم انگریزوں پر ڈالتی ہیں۔ انگریز کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی کے نتیجے میں برصغیر کے دو حصوں میں منقسم ہو گیا کہ فسادات کی آگ نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کردیا۔ کماری ٹھاکر کو مرکزی کردار کی حیثیت سے ایک آئیڈیل لڑکی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اور معاشرے کے بے بنیاد مظالم کا شکار عورتوں سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مساوی حقوق کے لیے حتی الا مکان جدوجہد کرتی ہے۔ بے شمار اچھائیوں کی مالک ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی خوبی نہیں جو اس کردار میں موجود نہ ہو۔ خوب صورتی میں بے مثال، صلاحیت و قابلیت میں، انصاف پسند، قوم پرست، عورتوں کے مقدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے، غریب عورتوں کی امداد اور ان کی کفالت، اس کے اوصاف ہیں، یہی سبب ہے کہ وہ ایسا طبقاتی نظام کے بدل دینے کا خواب دیکھتی ہے جس میں عورت مجبور و بے بس اور لاچار ہے۔ اس طرح جمیلہ ہاشمی نے عورتوں کے جذبات کا اظہار متاثر کن انداز میں کیا جس میں درد بھی ہے اور تڑپ بھی۔
جمیلہ ہاشمی نے دو تاریخی ناول چہرہ بہ چہرہ رو برو 1977ء اور دشت سوس ۱۹۸۳ء میں بھی تخلیق کیے۔ چہرہ بہ چہرہ رو برو میںناول کا مرکزی کردار ام سلمیٰ ہے جو ایک ایسے دور میں اپنے باپ کے کتب خانے سے استفادہ کر کے علمیت کی اُس منز ل پرچلی جاتی ہے کہ جب کسی خاتون سے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کلامِ حافظ اُسے از بر تھا، خود بھی اعلیٰ پائے کی شاعرہ اور شعلہ نوا مقررہ تھا۔ شیخ کاظم رشتی کے خطبات سے متاثر ہر کر بابی فرقے کی رکن بنی۔رشتی نے اُسے قرۃ العین کا خطاب دیا۔گھر چھوڑا، خود درس دینے لگی۔ ناول کی ہیروئن ام سلمیٰ کی روح بے چین ہے۔ چہرہ بہ چہرہ رو برو اس کی روحانی بیقراری کی داستان ہے۔ ام سلمیٰ ابتدا ہی سے غیر پابند اور لا محدود ذہن و فکر کی مالک تھی۔ اس کا محبوب محمدعلی باب بھی اس کی طرح قادر الکلام شاعر تھا وہ گویا رب تھا اور خداؤں کا ایک گروہ اس کے گرد یکجا ہو رہا تھا۔ جب بابیوں کی تنظیم اور تبلیغ حکومت کے لیے خطرناک حد سے تجاوز کر گئی تو ان کو بغداد سے ترک وطن کرنے کا حکم دیا گیا۔ حکومت نے باب کو قلعے میں قید کر دیا ا ور قرۃ العین طاہرہ کو اس کے حکم پر گلا گھونٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور اس کی لاش کو سنگسار کیا جاتا ہے۔قرۃ العین تاریخ کا ایک متنازعہ کردار ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ اُن کا یہ ناول حسنِ تاثیر سے خالی تھا۔ قاری پر تاثرقائم کرنے میںناکام رہا۔
دشت سوس (۱۹۸۴ء ) ایک کرداری ناول ہے جس کا مرکزی کردار بغداد کا درویش و صوفی حسین بن منصور حلاج ہے۔وہ ۸۵۸ء میں طوس (ایران) میں پیدا ہوا۔ یہ ناول مذکورہ بالا ناول سے بہتر قرار دیا گیا۔ اسے مقبولیت ملی۔منصور حلاج بھی اسلامی تاریخ کا ایک متنازعہ صوفی اور بے چین روح شخصیت تھا۔اُس نے قران کی نئی تفسیر کی۔شاعری باغیانہ تھی۔ گھر میں خانہ کعبہ کا ایک ماڈل بنایا۔ رات کو عبارت اور دن کو تبلیغ کرتا۔ حضرت سہیل طشتری کا شاگرد تھاپھر المکی کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا۔ بعد ازاں جنید بغدادیؒکے مدرسے میں گیا مگر انہوں نے اُسے اپنے حلقے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔کچھ عرصہ شعیت کے زیر اثر رہا۔ تصوف کے لحاظ سے منصور شہودی تھا اور انسان کی ذات کے اندر ہی خدا کے وجود کو تسلیم کرتا تھا۔انالحق کا نعرہ بلند کیا۔ اس کے معتقدین کی تعداد سے حکومت خوفزدہ تھی۔ اُسے پہلے قید رکھا گیا پھر زندیق اور مشرک ہونے کا الزام لگا کر 922ء میں دجلہ کے کنارے مصلوب کر دیا گیا۔ تیسرے دن اس کی سربریدہ لاش کو دجلہ کے کنارے پل پر لٹکا دیا گیا۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کرداری ناول ہے۔ علی حیدر ملک کو دئیے گئے ایک انٹر ویو میں ڈاکٹر رشید امجد نے اِس ناول سے متعلق کہا تھا کہ اِس پر جمیلہ ہاشمی نے محنت نہت کہ ہے لیکن اِس ناول کو پڑھنا آسان نہیں ۔مرکزی کردار کو تاریخی اعتبار سے درست پیش نہیں کیا گیا۔
اُن کی افسانوں میں ایک طرف اگر مشرقی پنجاب کے اضلاع جالندھر اور ہوشیار پور کے دیہاتوں اور اُں میں بسنے والے سکھوں کی تۃذیب و ثقافت نظر آتی ہے تو دوسری طرف خواجہ فرید کی روہی اور چولستان اپنے جوبن پر نظر آتے ہیں۔ بلونت سنگھ کے افسانوں میں حال کا دیہاتی کلچر کلوہ ریز ہے تو جمیلہ ہاشمی کے ہاں اُس میں ماضٰ کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ عورت ہیں ، اِس لیے کہانی بننے میں قترتی طور پر سلیقہ شعار ہیں۔ تجسس او تاثیر پیدا کرنے میں بھی کمال رکھتی ہیں۔وہ ماجٰ مے مزاروں کی مجاور نہیں ہے۔ اُس نے ماضی کے حوالے سے نا کامیوں، قنوطیت، مایوسیوں کے شکستہ ایوان نہیں دکھائے بلکہ وہ اُن کے نزدیک مٹی سے محبت اور وابستگی کا ایک ذریعہ ہے۔یاد داشتیں یا ماضی کے تجربات و حوادث احساسِ زیاں ہی سے عبارت ہوتے ہیں۔پچھتاوے،کچھ کھو دینے گویا رائیگانی کا احساس انسان کو ہر پل ڈستا رہتا ہے مگر جیسے میں نے ذکر کیا جمیلہ ہاشمی کے ہاں یہ مٹی اور کلچر سے جڑے رہنے اور وابستگی کا ذریعہ ہے۔ انتظار حسین نے کیا خوب لکھا تھا کہ’’ جمیلہ ہاشمی کے افسانوں کے سوا اب سکھ پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتے۔لیکن مجھے جمیلہ ہاشمی کے افسانوں میں سکھوں کے علاوہ بھی بہت کچھ نظر آتا ہے۔ میرے خیال میں پنجاب میں مخلوط کلچر کے خاتمہ پر امرتا پریتم کا نوحہ جمیلہ ہاشمی کے افسانوں کی وہ ان مٹ یادیں بن گئیں جو ا،ص قرۃٔ ارض کی لینڈ اسکیپ کا حصہ بن کر رہ گئیں‘‘۔اس کلیے کہ ایک زمانے تک موصوفہ اپنے بچپن کے پنجاب کی حسیت کے لیے ایک مخصوص زبان اور لسانی پیکر تراشنے میں لگی رہیں۔
۔۔۔۔۔