اکرم کنجاہی ۔۔۔ حجاب امتیاز علی

حجاب امتیاز علی

حجاب امتیاز علی اُردو ادب کی پہلی فکشن نگار خاتوں ہیں جنہوں نے تحیر آمیزی اور خوف ناکی سے اُردو ادب کے قاری کے چونکایا۔ مزید براں انہوں نے کوشش کی کہ افسانے کی فن کی روح اور تیکنیک پر عمل کیا جائے۔وہ ماحول کو سحر زدہ کر کے قاری کو متجسس کر دیتی تھیں۔اُن کا اسلوب بر جستہ اور مرصع ہوتا تھا۔اُن کے پلاٹ میں رومانیت بھی تھی اور وہ زیادہ تر متمول اور اونچے گھرانوں کے کرداروں کے گرد گھومتا تھا۔ اُ‘ن کے موضوعات میں غربت و افلاس کا تذکرہ نہیں ہوتا تھا بلکہ خوشحالی اور آسودگی دکھائی دیتی تھی۔ اُن کے افسانوں کی کل تعداد محقیقن نے ۴۰ بتائی ہے جو اُن کے چار مجموعوں کے علاوہ کئی رسائل میں اشاعت پذیر ہوتے رہے۔۱۹۲۵ء میں شائع ہونے والااافسانہ ’’میری نا تمام محبت‘‘ اُن کا پہلا افسانہ تھا جو اُن کی ایک کتاب کا عنوان بھی ہے۔
حجاب امتیاز علی۱۹۰۳ء میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں۔اُن کے والدین خاصے پڑھے لکھے تھے۔اِس لیے انہوں نے اُردو، فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی۔اُنہوں نے اپنے ناولوں کے توسط سے معاشرے کی اصلاح بالخصوص طبقہ نسواں کی آزادی و ترقی اور فلاح و بہبود کی تمام راہوں کی نشاندہی کی۔۱۹۳۴ء میں وہ سید امتیاز علی تاج کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو کر لاہور منتقل ہو گئیں۔وہ اپنے دور کی نہایت ترقی یافتہ اور روشن خیال خاتون تھیں۔ ان کی ترقی پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا باز کہلائیں۔ انہوں نے ۱۹۳۶ میں لاہور سے پائلٹ کا لائسنس بھی حاصل کیا تھا اور رسالہ تہذیب نسواں ۱۹۳۶ میں حجاب کے اس کارنامے کا کافی چرچا رہا۔اُن سے تقریبا پچیس تیس سال قبل خواتین کی بڑی تعداد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکی تھی۔ اُنہوںنے اپنے لیے الگ راہ نکالی اور اپنے ناولوں کے لیے عشق ومحبت کے موضوع کا انتخاب کیا جس کا اندازہ ان کے ناولوں سے بخوبی ہوتا ہے۔سجاد حیدر یلدرم لکھتے ہیں اس مصنف کے افسانے محض لڑکیوں کے لیے نہیں ہوتے وہ سب کے لیے ہیں۔ حجاب کی زبان نرم و نازک اوراسلوب شاعر انہ ہے۔چونکہ ان کا موضوع حسن و عشق ہے لہٰذا انہوں نے موضوع کے اعتبار سے ہی زبان و اسلوب کا انتخاب کیا۔ ان کے اسلوب میں شیرینی اور سوزوگداز ہے جو ان کے موضوع کا تقاضا ہے۔ ان کا پہلا ناول میری ناتمام محبت ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ وہ نیم رومانی فضا کی عکاسی کرتی ہیں چونکہ ان ناولوں میں بنیادی طور پر معاشرتی قدروں کا بیان اور شادی بیاہ کے مسائل کی باریکیاں موثر طریقے سے اجاگر ہوئی ہیں ساتھ ہی محبت، اخلاق، نظم و ضبط اور سماجی قوانین سے متصادم ہوتی ہیں۔حجاب نے رومانوی فضا اور نشاط انگیز ماحول میں موضوع کو خوب صورت انداز سے پیش کیا ہے۔
اس دور کے ناولوں میں نوابین اور امرا کے طرز حیات کی تصویر ساتھ چلتی ہے جو عالیشان محلوں میں رہ کر ہیرے موتی اور جواہرات سے دل بہلاتے ہیں اور جن کی خدمت گزاری کے لیے بے شمار دوشیزائیں تتلیوں کی طرح محلوں میں بھاگتی پھرتی ہیں۔ پورا ماحول داستانی رنگ سے رنگا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ناولوں میں سماجی رسم و رواج کی پابندی اور بندشوں کے المناک واقعات بھی رونما ہوتے ہیں ہیں۔ حجاب امتیاز علی نے اپنے ناولوں میں جس کا ئنات کو پیش کیا، اس میں محبت خوشیاں اور غم کے المناک واقعات ہیں جو سوتی کے کردار کے علاوہ انہوں نے دوسرے کرداروں کو بھی جس طرح پیش کیا ہے وہ بے مثال ہے۔جس کا کوئی ثانی نہیں خود منصور سحر انگیز حسن کا مالک ہوتا ہے اور بہت حد تک جو سوتی کا بے مثال رومانوی مزاج بھی ثانی نہیں رکھتا۔ سجاد حیدر یلدرم نے ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حجاب کے تخیل نے ایک نئی دنیا خلق کی ہے اور اس دنیا میں ایک نئی اور نہایت دلکش مخلوق آباد ہے۔یہ دنیا جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں اس سے علیحدہ ہے اور جو لوگ اس دنیا میں آباد ہیں وہ ہم سے مشابہ تو ضرور ہیں مگر بالکل ہماری طرح نہیں ہیں۔ ان کے ناول میں حقیقت و صداقت کے عناصر اور معنوی فضا اور تخیلاتی زورِبیاں کا استعمال ملتا ہے۔
ناول پاگل خانہ ایک فینٹیسی ہے جو ایٹمی دھماکوں کے اثرات اور پیدا کردہ صورتِ حال سے متعلق ہے۔ حجاب کا یہ درد، یہ سوچ سامنے آتی ہے کہ عام آدمی کو یہ احساس ہی نہیں کہ ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں تابکاری کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تابکاری کے اثرات سمندر کے پانی تک کو متاثر کرتے ہیں۔ایٹمی دھماکے رکنے میں نہیں آ رہے۔ انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سائنسی تجربے کرے چاند کی تسخیر کرے ناقابل حصول کو قابلِ حصول بنائے لیکن دنیا کو مستقبل میں تباہ و برباد کر دینے کا جواز اس کے پاس نہیں ہے۔ حجاب کی فنی خصوصیت مکالمہ کا استعمال بھی ہے۔ کہانی بیان کرتے ہوئے بار بار مکالموں کا سہارا لیتی ہیں۔اُن خواتین کے برعکس کہ جن کے ناولوں پر نذیر احمد اور راشد الخیری کے اثرات نمایاں ہیں، حجاب کے مکالمے اکثر چھوٹے چھوٹے اور برمحل ہوتے ہیں انہوں نے رومانوی ناولوں اور افسانوں کے علاوہ نفسیاتی مضامین اور افسانے بھی لکھے ہیں۔ان کا ایک نفسیاتی ناول ہے رسالہ ساقی میں قسط وار چھپا کرتاتھا۔انہوں نے ناولوں کے علاوہ افسانے بھی لکھے۔پہلا افسانہ ۱۹۳۲ء میں نیرنگِ خیال لاہور میں شائع ہوا۔اُن کے متعدد افسانوی مجموعے مثلاً ’’میری نا تمام محبت‘‘، ’’لاش اور دوسرے ہیبت ناک افسانے‘‘، کاؤنٹ الیاس کی موت‘‘، تحفے اور دوسرے شگفتہ افسانے‘‘، ’’صنوبر کے سائے اور دوسرے رومانوی افسانے‘‘، ’’ممی خانہ اور دوسرے ہیبت ناک افسانے‘‘ وغیرہ تقسیمِ ہند سے پہلے ہی شائع ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر گار کے افسانے، وہ بہاریں یہ خزائیں ۱۹۶۴ٔ میں اور ’’کالی حویلی ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوئے۔انہوں نے افسانوی ادب میں کئی یاد گار کردار بھی تخلیق کیے مثلاً ڈاکٹر گار، دادی زبیدہ، زوناش اور چچا لوٹ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اُردو زبان میں پُر اثرار طلشمی انداز، حسن و رومان اور رنگین فضاؤں کو متعارف کروایا۔

Related posts

Leave a Comment