مسرت افزا روحی
مسرت افزا روحی درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔شاعرہ، ادیبہ، صحافی،مدیرہ اور افسانہ نگار ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ’’حرزِ جاں‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ صحافت کو بھی اپنایا اور ’’زاویۂ نگاہ‘‘ کی مدیرہ رہی ہیں۔اُن کا افسانوی مجموعہ ’’آوازیں‘‘ ۲۰۰۴ء میں منظر عام پر آیا تھا۔اُن کا مطالعہ خوب ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ کئی افسانے لکھنے کے لیے انہوں نے خاصی تحقیق بھی کی ہے۔قوتِ مشاہدہ تیز ہے۔وہ بھی اُن چند فکشن نگاروں میں سے ہیں جن کے افسانوں کا اختتامیہ اکثر غیر متوقع اور چونکا دینے والا ہوتا ہے۔اُن کے افسانوں کا پلاٹ قاری پر گرفت رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ موصوفہ کا ایک خاص موضوع عورتوں کی نفسیاتی الجھنیں ہیں۔خود اُن کا کہنا ہے کہ روز مرہ کے معاملات افسانہ نہیں ہیں۔ افسانہ تو چونکا دینے والا نکشاف ہے۔ ایسا انکشاف جو دور تک آپ کے احساسات کی ڈوریں ہلا دے۔اُن کے افسانے’’پتھر کی عورت‘‘ جس میں ایک ماڈرن بیوی اپنا فگر خراب ہونے سے خوف زدہ ہے اور بچہ جننے کے لیے تیار نہیں ایک روز خاوند ایک یتیم بچے کو گھر لے آتا ہے۔دو اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’نماز پڑھنے کے بعد میں واپس آیا تو وہ بیڈپر بیٹھا کمرے کی اشیا کو حیرت سے تک رہا تھا۔ میں نے اسے گود میں اٹھایا ،ہاتھ منہ دھلایا ،پھر جب ہم ناشتا کر رہے تھے تو وہ ڈائننگ روم میں داخل ہوئی اور ٹھٹک کر وہیں رک گئی۔
’’یہ کیا چیز ہے…؟‘‘
’’انسان کا بچہ…!‘‘
’’وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے مگر اتنی صبح یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟‘‘
میں نے منہ پھیر لیا۔
’’میں پوچھتی ہوں آخر یہ کس کا بچہ ہے اور کہاں سے آیا۔‘‘ وہ چلائی۔
’’میں ایک پل بھی اس کا وجود اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘
’’کیوں اس سے تمہارے فگر پہ تو کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘
’’ہنہ دیکھ لوں گی میں…!‘‘وہ پیر پٹختی واپس چلی گئی۔‘‘
افسانے کا اختتامیہ ملاحظہ کیجیے:
’’اس دن جب میں واپس آیا تو گھر اُس (بچے) کی دھاڑوں سے گونج رہا تھا۔ میں اس کے کمرے کی طرف بھاگا۔بچہ دیوار کے ساتھ لگا سہما کھڑا تھااُس کے سرخ گالوں پہ انگلیوں کی لکیریں ابھری تھیں۔ کمرے کے بیچوں بیچ چند کھلونے ٹوٹے پڑے تھے اور وہ پوری آواز سے چیختی اب بھی ایڑیوں سے کھلونے کچل رہی تھی۔‘‘
(سہ ماہی غنیمت۲)
٭