اکرم کنجاہی ۔۔۔ یاسمین حمید

یاسمین حمید

ادبی دنیا میں یاسمین حمید کا پہلا تعارف شعری مجموعہ ’’پس آئینہ‘‘ (1988 ء) سے ہوا۔وہ بہت پہلے سے شعر کہہ رہی تھیں اور پختہ کار تھیں۔ لہٰذا فکری و اسلوبیاتی سطح پر پسِ آئینہ نے ادبی دنیا پر اپنا بھر پور تاثرقائم کیا۔ہم محدود مطالعے کے باعث نسائی شاعری کو ادا جعفری سے شروع کر کے پروین شاکر یا پھر شبنم شکیل پر ختم کر دیتے ہیں۔حالاںکہ اُن کی پیش رو شاعرات کے ابتدائی شعری مجموعے زیرِ مطالعہ لائیے، آپ اِس بات سے اتفاق کریں گے کسی حد تک اُن کے ہاں عصری حسیت تو تھی مگرحقیقی معانی میں کسی کی فکر اوراسلوب جدید حسیت کا حامل نہیں تھا۔یہ انفرادیت یاسمین حمید کے ہاں پوری آب و تاب سے جلوہ ریز ہے۔
یاسمین حمید سے متعلق بات کرتے وقت ہمیں اُن سے پہلے کے نسائی شعری منظر نامے سے نظریں ہٹانا پڑیں گی۔اِس لیے کہ اُن کے ہاں کشورناہید، فہمیدہ ریاض اور فاطمہ حسن کی طرح نہ تو کوئی فیمنزم ہے اور نہ ہی پروین شاکر و دیگر معاصرین کی طرح کچی عمر کے سنہری خواب اور دل خوش کُن خواہشات ہیں۔وہ تجربات بیان کرنے کی بجائے، محسوسات سے اثرقبول کر کے کسی نئے خیال اور نئی فکر کی بنیاد رکھتی ہیں:

یہ قتل گاہیں جو گر رہی ہیں تو شور کیسا
یہ کس لیے ہو رہا ہے ماتم روایتوں کا

لاشعوری اور وجدانی کیفیات کا علامتی و تجریدی اظہار جدید حسیت کہلاتا ہے۔۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشروں میں یہ طرزِ اظہار اپنے عروج پر تھا۔جدید افسانے اور شاعری نے اِس سے بھر پور استفادہ کیا۔یاسمین حمید نے علامتوں کا کثرت سے استعمال کر کے کلام کو خاصی معنوی وسعت دی ہے۔اُن کی غزل نئی علامتی غزل ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یاسمین نے کلام میں علامتوں کے استعمال میں قابلِ قبول حد کا خیال رکھا ہے اور اُس کی کچھ نہ کچھ حدیں متعین کی ہیں۔اُن کے ہاں علامت کا کام حسن آفرینی ہے۔ روایت کو آگے بڑھانا یا محض جدت کے نام پر تازہ کاری پیدا کرنا نہیں ہے۔حمیرا رحمان کی نسبت اُن کے سمبلز میں ابہام کم ہے اور شعر کے مصارع بھی دو لخت نہیں ہوئے۔سمبل کا کام یہ ہے کہ قاری کے ذہن میں پس منظر کے پیکر تراش دے اور مجھے یہ کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ موصوفہ منظروں پرنہیں پس منظروں پر نظر رکھتی ہیں۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سیدھے سپاٹ بیانیہ طرزِ بیاں سے کوئی ادبی کارنامہ کر لے گا تو یہ غلط فہمی ہے۔پھر یاسمین نے جس عہد میں شعر گوئی کا آغاز کیا وہ سیدھے سادھے انداز کا دور نہیں تھا بلکہ امیجری کے ذریعے جذبات و احساسات پیش کیے جا رہے تھے:

کئی نقطے پسِ ابلاغ ہوں گے
بہت کچھ چھپ گیا ہے دائرے میں
٭
اُس کو دانستہ کسی نے بھی معانی نہ دئیے
یہ نہیں ہے کہ مرے لفظ کو سمجھا نہ گیا

Related posts

Leave a Comment