’’لی سائو‘‘: کلاسیکی چینی شاعری کی شاہکارنظم ۔۔۔۔ ڈاکٹر عابد سیال

’’لی سائو‘‘: کلاسیکی چینی شاعری کی شاہکارنظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آ کھڑا ہوا ہوں

خطرے کی چٹان پر
جب سوچتا ہوں کہ میں یہاں کیوں پہنچا
تو بھی پچھتاتا نہیں ہوں
ایک ٹیڑھے اوزار کو سیدھا دستہ لگانا…
اس ’جرم‘ میں مارے گئے
اگلے وقتوں کے کئی لائق لوگ
یہ اقتباس ہے ’’لی سائو‘‘ کے اردو ترجمے سے جسے چین کی کلاسیکی شاعری کی ایک شاہکار نظم ہونے کا مرتبہ حاصل ہے۔ اس مختصر اقتباس کی سطریں اس نظم کے شاعر کی اس داخلی کیفیت کو بخوبی بیان کرتی ہیں جو نہ صرف اس نظم کو کئی حوالوں سے چین کے شعری ادب میں اوّلیت کے درجے پر فائز کرتی ہے بلکہ اخلاص اور دیانتداری کے پیکر اس کے شاعر کو بھی گمنامی کی اس گرد میں کھوجانے سے بچاتی ہے جو اس سے پہلے کے بے شمار شاعروں کا مقدر ٹھہری۔
O
چینی شاعری کی سب سے پہلی معلوم کتاب کا عنوان شیہہ چنگ (Shih-ching)ہے جس کا لفظی معنی ’گیتوں کی کتاب ‘ ہے۔ یہ کتاب کنفیوشس نے مرتب کی۔ ۳۰۵ گیتوں یا نظموں پر مشتمل یہ کتاب تین حصوں میں منقسم ہے۔ ۱۶۰ گیتوں پر مشتمل پہلا حصہ لوک گیتوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں ۱۰۵ گیت ہیں جن کا تعلق شاہی دربار اور اس کے متعلقات سے ہے۔ تیسرے حصے میں ۴۰ گیت ہیں جن کی حیثیت روحانی، اخلاقی اور مذہبی شاعری کی ہے۔ قدیم چینی شاعری کا تعارف پہلے پہل اسی کتاب کا مرہونِ منت ہے۔دوسری کتاب جو چین کی کلاسیکی شاعری میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے اس کا عنوان چُھوزُو (Chu Zu) ہے جس کا مطلب ہے چُھو کے گیت۔ اس کتاب کا سب سے نمایاں حصہ وہ نظمیں ہیں جو چُھویوآن کی تخلیق ہیں، چُھو یوآن جو بعض ناقدین کی رائے میں بابائے شاعری ہے اور بعض ناقدین کے نزدیک اسے چینی شاعری کا پہلا غیرگمنام شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ چُھو یوآن کی کئی نظمیں اس مجموعے کا حصہ ہیں لیکن سب سے معروف نظم کا عنوان ’’لی سائو‘‘ ہے۔
چُھو نام کی ریاست چائو دور کی جاگیرداری ریاستوں میں سے ایک تھی۔ یہ ریاست یانگ زی نامی وادی میں تھی اور ان سب ریاستوں کی جنوبی سرحد پر واقع تھی جو مجموعی طور پر شمالی چین کی چائو دور کی ریاستیں ہیں۔ یوں یہ ریاست شمالی چین کی ریاستوں میں شامل ہونے کے باوجود اپنے محلِ وقوع کی وجہ سے سے سہ جہتی ثقافتی امتیاز رکھتی ہے۔ یہاں کی ثقافت میں شمالی چین کے عناصر بھی موجود تھے جو چینی ثقافت کے مرکزی دھارے کے عناصر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ چین کا قلبی علاقہ تھا اور ثقافتی امتزاج کے عناصر کا امین تھا۔ مزید برآں چھویوآن نے زیرنظر نظم میں ایسی امیجری اور ثقافتی نشانات استعمال کیے ہیں جو روایتی طورپر جنوبی چین کی ثقافت میں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چُھو یوآن کی اس نظم کو جہاں جنوبی چین کے ادب میں ممتاز ترین مقام حاصل ہے وہیں چین کے کلاسیکی ادب کے مرکزی دھارے میں بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔
O
لی سائو نہ صرف چھویوآن اور چینی ادب بلکہ بعض ناقدین کے نزدیک دنیا کی بڑی نظموں میں سے ایک ہے۔ چُھو یوآن کی شخصیت سے متعلق حقائق بھی اور اس نظم کا اس سے انتساب بھی تاریخی اعتبار سے کسی حد تک دھندلاہٹ کا شکار ہے۔ غالب خیال یہ ہے کہ اس دوران لکھی گئی جب اس کا شاعر چھویوآن جو بادشاہ کا مصاحب تھا، غیظِ شاہی کا شکار ہو کر دریائے یانگ سی کے جنوب میں جلاوطنی کے دن گزار رہا تھا۔ چھویوآن ایک عالی ہمت اورانسانی شرف کا پاسدار شخص تھا۔ وہ شمالی حکمرانوںکی سخت گیری اور استحصالی رویوں کے خلاف برسرِپیکار رہا۔ اس کے ہاں انسان دوستی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کی خواہش نظر آتی ہے۔
اگرچہ ساری نظم کا محور چُھو یوآن کی زندگی اور افکار ہی ہیں تاہم اس میں اس کی ذاتی زندگی کے واقعات اور اس کی دلچسپیاں ایسے دلکش پیرائے میں بیان ہوئی ہیں جن سے اس نظم کا شاعر ایک رومانوی اور اساطیری شخصیت کے روپ میں نظر آتا ہے۔ نظم کے آغاز ہی میں وہ اپنی پیدائش کا تذکرہ اس انداز سے کرتاہے جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ وقت بہت سعادت کا تھا۔ نظم میں جہاں وہ اپنے خاندان کی شرافت و نجابت کا تذکرہ کرتا ہے وہیں دیوتائوں کی مہربانی کے سعدسائے میں خود کو پروان چڑھتا دیکھتا ہے۔ جہاں دنیاوی اعتبار سے اپنی سیاسی آئیڈیل شخصیات کا تذکرہ کرتا ہے وہیں اساطیری کرداروں کے حوالے بھی شامل کرتا ہے۔ جہاں جنگلی پھولوں، مختلف جڑی بوٹیوں، درختوں اور روزمرہ زندگی کے دیگر عناصر کا ذکر کرتا ہے وہیں روحانی، مذہبی اور ثقافتی کرداروں کو بھی ان کی خاص استعاراتی کیفیت کو اجاگر کرتے ہوئے شامل کرتا ہے۔ یوں یہ نظم ایک سیاسی اور سماجی شخصیت کی عملی زندگی اور اس کے آدرشوں کا منظرنامہ ہوتے ہوئے بھی ایک اساطیری رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے ادوار میں چُھویوآن کو ایک اساطیری کردار کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس کے نام کا مندر بھی ہے اور اس کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ مندر کا نام ’چھُو یوآن کا مندر‘ ہے لیکن اسے ’شہید کا مندر‘ بھی کہا جاتا ہے جو صوبہ ہُوبے کے ایک قصبے زی چھوئی میں سیانگ چیاپنگ کے مقام پر واقع ہے اور قدرتی مناظر کی خوبصورتی کے باعث ایک معروف اور دلکش سیاحتی مقام ہے۔ چھُویوآن کی یاد میں ۵ مئی کو اساطیری اژدر کی کشتی کا جشن(dragon boat festival) منایا جاتا ہے۔ اس دن روایتی طرز کا کھانا پکا کر دریا میں پھینکا جاتا ہے،روایت کے مطابق جس کا مقصد یہ ہے کہ مچھلیاں اس خوراک کو کھائیں اور چُھو یوآن جس نے دریا میں ڈوب کر خودکشی کر لی تھی، اس کا جسم مچھلیوں سے کھائے جانے سے محفوظ رہے۔
O
تین سو ستر (۳۷۰) سے زائد مصرعوں پر مشتمل اس نظم میں تقریباً ۲۴۰۰تصویری اشکال جنھیں جدید دور میں کریکٹرکہا جاتا ہے، استعمال ہوئی ہیں۔ چینی نظمیں مختصر ہوتی ہیں اور عام طور پر آٹھ دس یا زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لہٰذااس طوالت کے باعث بعض روایتوں میں اسے چینی کلاسیکی شاعری کی روایت میں طویل ترین نظم قرار دیا گیا ہے۔ غیرمعمولی طوالت اور موضوع کے اعتبار سے اسے چینی رزمیہ بھی کہا جاتا ہے، اگرچہ اس میں اس طرح کے عناصر موجود نہیں جو دنیا کے عظیم رزمیہ ادب میں ملتے ہیں۔
مزاج کے اعتبار سے لی سائو ایک نوحہ ہے۔ لہٰذا اس میں شاعری کے وہ عناصر جن کا تعلق گہرے دکھ اور غم سے ہے، نمایاں ہیں۔ لی سائو کا سب سے زیادہ مقبول انگریزی متبادل Encountring Sorrow استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بعدازاں اسے Sorrow after Departure یا Sorrow at Partingیعنی مہجوری کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔ موجودہ دور کے علمائے ادب میں سے چند ایک نے اسے Sorrow in Estrangement کے طور پر لیا ہے جس کا مفہوم مہجوری کے بجائے غیریت اور اجنبیت سے قریب ہے۔ تاہم بعض ناقدین اب بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خاص طرز کی موسیقی کا نام ہے۔ یہ ایک طویل غنائیہ نظم ہے جو شدید صدمے کی زد میں آئی ہوئی ایک ایسی روح کا تصوراتی سفر جو سچائی کی جویندہ اور آدرشوں کے ٹوٹنے پر رنجیدہ ہے۔
نظم میں کئی باتیں قابل توجہ ہیں جو اسے ایک اعلیٰ ادبی شاہکار کا درجہ دیتی ہیں۔ بھرپور تمثال کاری، ہنرمندانہ تشبیہات جیسے اسلوبیاتی خصائص کے ساتھ ساتھ فکری اعتبار سے یہ نظم حب الوطنی اور مہجوری کے غم کا دل میں اتر جانے والا اظہاریہ ہے۔ کئی تاریخی حوالے، تلمیحات اور اساطیر اس طرح کام میں لائی گئی ہیں کہ قدیم چینی دور کے ریاستی نظام کی پیچیدگیوں اور اس دور کی سماجی زندگی کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اظہار ہوتا ہے۔ فرد اور حاکم اشرافیہ کے درمیان تنازعہ اس نظم کا بنیادی موضوع ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعر کا حق اور انصاف کے لیے لڑنے کا عزم، اپنے ملک کو بچانے کی تمنا اور اپنے لوگوں کے لیے اس کے دل میں جاگزیں محبت کا اظہار اس نظم کو جلال اور دوام عطا کرتے ہیں۔
O
نظم اپنے آغاز میں شاعر کی شرافت و نجابت، اس کی خاندانی عظمت، اس کے عظیم باپ کے تذکرے، اس کے با سعادت نام، اس کی پیدائشی صلاحیتوں، اور خداداد قابلیت کا تعارف بڑے دلفریب انداز میں پیش کرتی ہے۔
اپنے جدِامجد کائو یانگ کے خاندان کے چشم و چراغ
پوینگ میرے والد تھے
شی فی کی کہکشاں کے ستارے
جب پہلی کے چاند کے گھر رونق افروز ہوئے
کینگ یِن کے دن
میں نے اس دنیا میں قدم رکھا
میرے والد نے میری پیدائش کی علامات و آثار دیکھتے ہوئے
میرے لیے پاک ترین خوش بختی کا نام تجویزکیا
انھوں نے مجھے ’مثالی خودداری کاپیکر‘ کے نام سے نوازا
اور مجھے ’روحانی توازن‘ کا لقب عطا کیا گیا
نظم کے آغاز کی یہ صورت قدیم چینی ثقافت میں خاندانی نجابت و عظمت کی اہمیت کی غماز ہے۔ یہ صورت آج بھی چین میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کسی شخص کو اس کے ذاتی نام کے بجائے اس کے خاندانی نام سے پکارنا زیادہ مستحسن اور اظہارِتکریم کا طریقہ سمجھا جاتاہے۔ جاہلی دور کے عرب کلچر میں بھی رجزخوانی کی صورت کچھ ایسی ہی تھی جہاں اپنے خاندان، قبیلے اور نسل کو فضیلت اور برتری کے معیار کے طورپر پیش کیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعر اپنی ذات سے وابستہ خوش بختی اور سعادت کا تذکرہ بھی اعتماد اور یقین کامل کے ساتھ کرتا ہے۔یہ انداز ایک طرف تو اس بات کا اظہار ہے کہ آگے چل کر وہ جس موضوع کو نظم میں بیان کرنے والا ہے اس میں وہ خود کو، اپنے افکار کو اور باطل قوتوں کے خلاف لڑنے کے اپنے عزم کو حق پر سمجھتے ہوئے خود کو خیرکی کائناتی قوتوں کا نمائندہ سمجھتا ہے۔ دوسری طرف یہی اعتماد اور اس کے افکار میں سچائی، پاکیزگی اور دیانتداری کے اوصاف اسے ایک ایسا رومانوی اور داستانوی روپ دیتے ہیں جو اس کی تاریخی حیثیت کے گرد ایک اساطیری ہالہ تخلیق کر کے اس کی شخصیت کو ایک علامتی حیثیت بھی عطا کرتے ہیں۔ آگے چل کر نظم چھویوآن کی سیاسی زندگی اور اس عہد کے سیاسی ماحول کو پورے سماجی شعور کے ساتھ بیان کرتی ہے۔
O
’’لی سائو‘‘ میں شاعر نے اپنے اس سیاسی مؤقف کا اظہار کیا ہے کہ وہ کبھی باطل قوتوں کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرے گا۔ اسے محکم یقین ہے کہ وہ چُھو کی ریاست میں راست عملی کااحیاء کر کے رہے گا خواہ اسے (قدیم چینی محاورے کے مطابق) نو (۹)مرتبہ بھی مرنا پڑے۔ اس نظم میں شاعر اپنی سیاسی آئیڈیل شخصیات کا ذکر بھی کرتا ہے،ایسے بادشاہ جو اپنے اپنے عہدمیں سچائی، عدل و انصاف اور اعلیٰ انسانی اقدار کے خوگر تھے۔ اور ان کے مقابلے میں وہ جنھوں نے غلط راستوں کا انتخاب کیا، ان سے نفرت کا اظہار بھی کرتا ہے۔
کتنی اچھی تھی’تین قدیم بادشاہوں‘کی یہ صفت
کہ ان کے پاس جو کچھ تھا
اس سے مہکار آتی تھی
چھوٹی دار چینی میں ملائی ہوئی شان کی مرچیں
بہتر تھیں
کئی سدا بہار پودوں سے
اور یائو اورشن زیرک اور دھن کے پکے،
انھوں نے تائو کی تکریم کی اور سیدھی راہ پر چلے

لیکن چائو اور چیہہ
بھگدڑمچاتے ہوئے دوڑے
جنگلی انداز میں
بیچ کے چورراستے ڈھونڈتے،
کھائیوں میں لمبے لمبے ڈگ بھرتے،
پُر خوف سایہ دار اندھیرے رستوں سے عشرتیں سمیٹتے
چھویوآن اپنے آقائوں کی بے حسی پر مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے ہاں ایک اور قابلِ توجہ نکتہ اس کا جمود اور ٹھہرائو، جسے معاصر سیاسی اصطلاح میں ’سٹیٹس کو‘ کہا جا سکتا ہے، کی مخالفت ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی اور عوام کی حالتِ زار سے لاپرواہی اس کے لیے سیاسی نعرے کی بجائے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
میں نے سخت نفرت کی
پارسائی کا لبادہ اوڑھے اپنے آقا کی متلوّن مزاجی سے
جس نے کبھی کوشش نہیں کی
اپنے لوگوں کے دل کی بات سمجھنے کی

اس کی بہت سی بیویاں مجھ سے کینہ رکھتی ہیں
میری خوبصورتی کی وجہ سے
اور باہم سرگوشیاںکرتی ہیں
کہ میں اپنے ہنر سے آقا کو مطیع کرنا چاہتا ہوں
چوں کہ فریبی ہیں
وہ اور اس زمانے کے سب بے ہودہ لوگ
پیمانہ و مسطر لے کر
چیزوں کو غلط طور پر سیدھا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں
چاک کی لکیر کی طرح
منحنی شکلیں بناتے ہوئے
فریبی ’چائو‘ کے طور طریقوں کو اپنے لیے نمونہ بنائے ہوئے ہیں

اس ٹھہری ہوئی حالت میں مَیں مایوسی اور عدم یقین کا شکار ہوں
کیا صرف مَیں ہی ہوں جو محسوس کرتا ہوں آجکل کی زندگی کی سختی کو؟
کاش میں یہاں کھڑے ہو کر یہ سب کچھ دیکھنے کی بجائے
مر جاتا … وطن سے دُور کہیں بھٹکتے ہوئے
غالب نے کہاتھا:
مجھ کو دیارِ غیر میں مارا وطن سے دُور
میرے خدا نے رکھ لی مِری بے بسی کی شرم
لیکن غالب کے ہاں یہ بات تخیل کی حد تک رہی جب کہ چھویوآن نے اس صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر دریائے میلیو (Miluo) میں ڈوب کر واقعتاً خودکشی کر لی۔ روایت ہے کہ اس کے لیے اس نے احتجاجی خودکشی کرنے کے روایتی طریقے کو اپناتے ہوئے اپنے جسم سے ایک بھاری پتھر  باندھا اور اس پتھر سمیت خود کو دریا میں ڈبو لیا۔
O
’’لی سائو‘‘ کو فنی اعتبار سے دائمی عظمت بخشنے میں ایک بڑا کردار اس میں پیش کی گئی امیجری کے منفرد ہونے کا ہے۔ یہ اس طرز کی امیجری پیش کرنے والی چینی شاعری کی پہلی نظم ہے۔ اس نے پھولوں،جڑی بوٹیوں اور دیگر قدرتی نباتات کی تمثالوں کو لوگوں کے رویوں اور ان کی سرشت کے اظہار کے لیے بہت کامیابی سے اور ایسے انداز میں پیش کیا ہے کہ اس سے پہلے ایسی مثالیں معروف نہ تھیں اور اس کے بعد زندگی کے مظاہر کو بیانیہ طرز کی شاعری میں پیش کرنے کی روایت کاآغاز ہوا۔
میں نے سوچا کہ مجھے ’پھول‘پر بھروسہ کرنا چاہیے
لیکن اصلیت کچھ بھی نہیں اس کے آرائشی چہرے کے پیچھے
وہ حسن ہے جسے ہجوم نے ٹھکرا دیا ہے
کیا میں اسے دوبارہ معطر اشیا میں جگہ دلا سکتا ہوں؟
اور’مرچ‘خوشامدی اور شوخ و گستاخ ہے
وہ اپنا عطردان گھٹیا جھاڑی دار بیری کے پھل سے بھرتے ہیں
اور ہلکان ہوتے ہیں
صرف آگے نکلنے اور مراعات حاصل کرنے کی تگ ودو میں
کیا مجھے ان کا کہا ماننا چاہیے؟
یہی وہ رستہ ہے جس پر میری دنیا کے لوگ چلتے ہیں…
اور کون ہے جو یہاں رہ سکتا ہے… خود کو بدلے بغیر؟
اگر ’پھول‘اور’ مرچ‘اس طرح کے ہیں
تو کارٹ ہالٹ اورآبی ساج تو اور بھی بڑھ کر ہوں گے

میری نسل اپنے رویے چھپانے میں
بڑی پُرکار ہے
ان میں سے کون ہے جو فیصلہ کر سکے
میرے اچھے یا بُرے ہونے کا
عام لوگوں پر اچھائی اور بُرائی عیاں ہے
صرف مقتدر طبقہ یہ فرق کرنے سے عاری ہے
وہ اپنے کمربند سجاتے ہیں
بدبودار جڑی بوٹیوں سے
اور کہتے ہیں کہ پھول مناسب نہیں ہوتے پہننے کے لیے
جو فرق نہیں کر سکتے … شگوفے اور بدبودار کائی میں
وہ نگینوں کے جوہری کیسے ہو سکتے ہیں؟
لبریز کر کے اپنے عطر دانوں کو … غلاظت سے
وہ کہتے ہیں کہ سیاہ مرچیں خوشبودار نہیں ہوتیں
لی سائو نہ صرف اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے بلکہ اسلوبی زاویے سے جدید طرز کی شاعری ہونے کے ساتھ ساتھ فنی حوالے سے بھی بلحاظ ہیئت ایک نئی صنف کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ یہ نئی صنف فُو (fu) کے نام سے معروف ہوئی جو شاعری اور نثر کے عناصر کے امتزاج سے تشکیل پاتی ہے۔ اس کی تشکیل ہان دور (۲۰۶ق م تا ۲۲۰ عیسوی) میں ہوئی جو چھویوآن کی وفات (۲۷۸ق م) سے کافی بعد کا دور ہے تاہم اس صنف کی بنیاد لی سائو کے ہیئتی نظام پر ہی رکھی گئی۔ اس سے پہلے کی شاعری کی معروف صنف سائو (sao) تھی جس میں داخلیت اور غنائیت کے عناصر حاوی تھے۔ اس کے مقابلے میں فُو میں بیانیہ پیرایہ اور خارجیت کے عناصر نمایاں تھے جو دراصل لی سائو کی عطا تھے۔ فُو کا نظامِ قوافی بھی سائو کی نسبت کم پابندیوں کا حامل تھا۔ لہٰذا یہ صنف اپنے آہنگ اور برتائو میں تو شاعری ہے لیکن ہیئتی اعتبار سے نثر کے قریب بھی ہے۔
چھُو یوآن کی المناک موت کے بعد وسیع پیمانے پر اس کے طرزِ کلام کی پیروی کی گئی اور آئندہ تقریباً پانچ صدیوں تک شاعری اس کے اعجازِ سخن کی اسیر رہی اور اس کے بعد لکھی جانے والی نظمیں ’لی سائو نظمیں‘ کہلاتی رہیں۔ ’’لی سائو‘‘ کی درج ذیل سطروں میں اس نے اپنی پیش روی کی بات اگرچہ اپنی نظم کے فکری تناظر میں کہی تھی لیکن اس کے بعد کی شعری روایت کو دیکھیں تو ادبی حوالے سے بھی اس کا کہا درست معلوم ہوتا ہے:
بوڑھا ہونے سے ڈرتے ہوئے
عمرِطبعی کے پورا ہونے سے نفرت کرتے ہوئے
شاید میں نے یہ راہ ابھی تھوڑی سی طے کی ہے؟
میں عمدہ ترین راہواروں پر زین ڈال کر دور تک جائوں گا
آئو، میرے قدموں کے نشانوں پر قدم رکھتے
میں تمھیں سب سے آگے موجود ملوں گا

Related posts

Leave a Comment