دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں ۔۔۔ رفیق سندیلوی

دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں
آنا پڑا ہے جس بھی رعایت سے آئے ہیں

ہم نے کبھی پروں کو منقّش نہیں کیا

جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں

سر سے نہ کھینچ سایۂ دیوارِ دلبری

اے دھوپ! ہم یہاں بڑی حسرت سے آئے ہیں

سو حاجتیں ہیں‘ اب کہاں تفصیل میں پڑیں

فی الوقت اور ہی کسی حاجت سے آئے ہیں

پھر جشنِ رقص ‘ وہ بھی ہمارے ہی نام پر

اور ہم گزر کے کیسی قیامت سے آئے ہیں

Related posts

Leave a Comment