دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں
آنا پڑا ہے جس بھی رعایت سے آئے ہیں
ہم نے کبھی پروں کو منقّش نہیں کیا
جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں
سر سے نہ کھینچ سایۂ دیوارِ دلبری
اے دھوپ! ہم یہاں بڑی حسرت سے آئے ہیں
سو حاجتیں ہیں‘ اب کہاں تفصیل میں پڑیں
فی الوقت اور ہی کسی حاجت سے آئے ہیں
پھر جشنِ رقص ‘ وہ بھی ہمارے ہی نام پر
اور ہم گزر کے کیسی قیامت سے آئے ہیں
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...