رفیق سندیلوی… دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں

Read More

دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں ۔۔۔ رفیق سندیلوی

دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں آنا پڑا ہے جس بھی رعایت سے آئے ہیں ہم نے کبھی پروں کو منقّش نہیں کیا جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں سر سے نہ کھینچ سایۂ دیوارِ دلبری اے دھوپ! ہم یہاں بڑی حسرت سے آئے ہیں سو حاجتیں ہیں‘ اب کہاں تفصیل میں پڑیں فی الوقت اور ہی کسی حاجت سے آئے ہیں پھر جشنِ رقص ‘ وہ بھی ہمارے ہی نام پر اور ہم گزر کے کیسی قیامت سے آئے ہیں

Read More

اِک عجب منظرِ دہشت ہے کہ دِل ڈوبتا ہے ۔۔۔ رفیق سندیلوی

اِک عجب منظرِ دہشت ہے کہ دِل ڈوبتا ہے کس سمندر کی رفاقت ہے کہ دِل ڈوبتا ہے عالمِ فتح میں جاری ہے شجاعانہ رقص اور اِس رقص میں حیرت ہے کہ دِل ڈوبتا ہے نزع کی ، وہم کی یا خواب کی یا  رُویا کی کیا خبر کون سی حالت ہے کہ دِل ڈوبتا ہے دِل کو ہونا ہی تھا غرقاب کہ وقتِ رخصت جیسے اِنسان کی فطرت ہے کہ دِل ڈوبتا ہے برقِ یک جلوہ سے دِل پہلے لرز اُٹھتا تھا اَب وہ نظارۂ کثرت ہے کہ دِل…

Read More