رفیق سندیلوی… دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں

Read More

دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں ۔۔۔ رفیق سندیلوی

دل کی طلب کہ جسم کی وحشت سے آئے ہیں آنا پڑا ہے جس بھی رعایت سے آئے ہیں ہم نے کبھی پروں کو منقّش نہیں کیا جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں سر سے نہ کھینچ سایۂ دیوارِ دلبری اے دھوپ! ہم یہاں بڑی حسرت سے آئے ہیں سو حاجتیں ہیں‘ اب کہاں تفصیل میں پڑیں فی الوقت اور ہی کسی حاجت سے آئے ہیں پھر جشنِ رقص ‘ وہ بھی ہمارے ہی نام پر اور ہم گزر کے کیسی قیامت سے آئے ہیں

Read More

غار میں بیٹھا شخص ۔۔۔۔۔۔ رفیق سندیلوی

غار میں بیٹھا شخص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاند،ستارے پھول،بنفشی پتے ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر اُڑنے والی برف لکڑی کے شفّاف ورَق پر مور کے پَر کی نوک سے لکھّے کالے کالے حرف اُجلی دھوپ میں ریت کے روشن ذرّے اَور پہاڑی درّے اَبر سوار سُہانی شام اوِر سبز قبا میں ایک پَری کا جسم سُرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے پھولوں جیسے اِسم رنگ برنگ طلسم جھیل کی تَہ میں ڈوبتے چاند کا عکس ڈھول کے وَحشی تَال پہ ہوتا نیم بَرہنہ رقص! کیسے کیسے منظر دیکھے ایک کروڑ برس پہلے…

Read More