مظفر حنفی ۔۔۔ ہوا ناراض تھی ہم سے کنارا دور تھا ہم سے

ہوا ناراض تھی ہم سے کنارا دور تھا ہم سے
سمندر تھا کہ یاں سے واں تلک بھر پور تھا ہم سے

خودی، خود آگہی، خودرائی جس میں جلوہ گر ہوتے
وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چور تھا ہم سے

محبت اور جو آنا مرگ، رونا داستاں گو کا
گھنی باتوں کا جنگل رات بھر پُرنور تھا ہم سے

مزا بھی ہے سزا بھی ہے مسلسل رقص کرنے میں
مگر ہم رقص ہم تھے آسماں مجبور تھا ہم سے

خود اپنے کو بھی اک پردے میں رہ کر دیکھنا ہو گا
یہی جو آئنے میں ہے ابھی مستور تھا ہم سے

مظفر اب یہی دنیا ہمیں نابود کر دے گی
یہ پیمانہ لبالب تھا کبھی، معمور تھا ہم سے

Related posts

Leave a Comment