مظفر حنفی ۔۔۔ اک ستارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے

اک ستارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے
رات بھر تذکرۂ یار کیا کرتا ہے

بیٹھنے پاتے نہیں سایۂ دیوار میں ہم
کوئی گریہ پسِ دیوار کیا کرتا ہے

وہ بھڑکتا ہے مرے سینے میں شعلے جیسا
پھر اسی آگ کو گلزار کیا کرتا ہے

ایک ناسور ہے احساس میں حق تلفی کا
جو مری ذات کو مسمار کیا کرتا ہے

بادباں کھول کے دیکھو تو سفینے والو
خشک دریا بہت اصرار کیا کرتا ہے

کوئی خوشبو کی طرح نام ترا لے لے کر
پھول کے کان میں گنجار کیا کرتا ہے

اُس کو ارمان تھا اڑنے کا مظفر، لیکن
اب پرندوں کو گرفتار کیا کرتا ہے

Related posts

Leave a Comment