مظفر حنفی ۔۔۔ اک ستارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے

اک ستارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے رات بھر تذکرۂ یار کیا کرتا ہے بیٹھنے پاتے نہیں سایۂ دیوار میں ہم کوئی گریہ پسِ دیوار کیا کرتا ہے وہ بھڑکتا ہے مرے سینے میں شعلے جیسا پھر اسی آگ کو گلزار کیا کرتا ہے ایک ناسور ہے احساس میں حق تلفی کا جو مری ذات کو مسمار کیا کرتا ہے بادباں کھول کے دیکھو تو سفینے والو خشک دریا بہت اصرار کیا کرتا ہے کوئی خوشبو کی طرح نام ترا لے لے کر پھول کے کان میں گنجار کیا…

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ ایک نظم

ایک نظم ۔۔۔۔۔۔ دن چڑھ آیا چل، ہم زاد! میرے بستر پر تو آ جا کالی نفرت سُرخ عقیدت بھوری آنکھوں والی حیرت بھولی بھالی زرد شرافت نیلا نیلا اندھا پیار رنگ برنگے غم کے تار خوشیوں کے چمکیلے ہار دھانی، سبز سپید، سنہرے اپنے سارے نازک جذبے پھر دن کو تجھ کو سونپے مصلحتوں کے شہر میں ان کے لاکھوں ہیں جلّاد دن چڑھ آیا چل، ہم زاد!

Read More

دوسری جلا وطنی ۔۔۔ مظفر حنفی

دوسری جلا وطنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب گیہوں کا دانا جنس کا سمبل تھا اس کو چکھنے کی خاطر میں جنت کو ٹھکرا آیا تھا اب گیہوں کا دانہ بھوک کا سمبل ہے جس کو پانے کی خاطر میں اپنی جنت سے باہر ہوں!

Read More