ایک الجھاوا ۔۔۔۔۔ توقیر عباس

ایک اُلجھاوا ۔۔۔۔۔ کتنے دنوں کی گرد پڑی ہے کتنی باتوں کی سرگوشیاں گونج رہی ہے اک ترتیب میں سب اوقات رکھے تھے خستہ دیواروں سے دیمک ایک مقدس لمس کو چاٹ رہی ہے خاک و خون میں غلطاں شبد پڑے ہیں اور چراغ اندھیرا چھوڑ رہا ہے کرنیں شام کی گود میں گر کر مر جاتی ہیں اور جو میں ہوں تنہا اک خود ساختہ غم کی موج میں سب کچھ میرے دم سے تھا اب تو کچھ بھی نہیں ہے

Read More