قتیل شفائی ۔۔۔۔۔ کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے

کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے مجھ کو اِس ویرانے سے ڈر لگتا ہے شہر میں ہے یہ حال ترے دیوانے کا جس رستے سے گُزرے، پتھر لگتا ہے چوٹ بھی کھا کر جب وہ چومے پتھر کو ایسے میں انسان پیمبر لگتا ہے اس نے ہاتھ چھُڑا کر موڈ بگاڑ دیا اب وہ مجھ کو زہر برابر لگتا ہے جو پروانہ اپنی جان کی فکر کرے وہ عشّاق کی ذات سے باہر لگتا ہے آیا جس کے ہاتھ پرایا آئینہ اپنی ذات میں وہ اسکندر لگتا ہے…

Read More