حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بل کہتے ہیں
Read MoreTag: قتیل شفائی
قتیل شفائی
ایک یہی پہچان تھی اپنی اس پہچان سے پہلے بھی پاکستان کا شہری تھا میں پاکستان سے پہلے بھی
Read Moreقتیل شفائی
ثبوتِ عشق کی یہ بھی تو ایک صورت ہے کہ جس سے پیار کریں اُس پہ تہمتیں بھی دھریں
Read Moreقتیل شفائی
ساری دنیا کی نظروں میں جھوٹے ہیں اندر سے ہم لوگ جو ٹوٹے پھوٹے ہیں
Read Moreقتیل شفائی ۔۔۔۔۔ کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے
کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے مجھ کو اِس ویرانے سے ڈر لگتا ہے شہر میں ہے یہ حال ترے دیوانے کا جس رستے سے گُزرے، پتھر لگتا ہے چوٹ بھی کھا کر جب وہ چومے پتھر کو ایسے میں انسان پیمبر لگتا ہے اس نے ہاتھ چھُڑا کر موڈ بگاڑ دیا اب وہ مجھ کو زہر برابر لگتا ہے جو پروانہ اپنی جان کی فکر کرے وہ عشّاق کی ذات سے باہر لگتا ہے آیا جس کے ہاتھ پرایا آئینہ اپنی ذات میں وہ اسکندر لگتا ہے…
Read Moreماہ نامہ شام و سحر جولائی1997ء
ماہ نامہ شام و سحر ۔۔ جولائی 1997ء Download
Read More