خالد احمد

ہاتھ سے لَے نکل گئی، شور میں ضربِ ذات   کے ہم ہی تو گُر تھے، ہم ہی سَم، زمزمۂ حیات   کے کوئی مہک نہ چن سکا، کوئی چٹک نہ سن سکا پھول بھلا دکھائے کیا؟ بھائو سبھائو ذات   کے گھر میں نہ اک چھدام تھا، چاند چراغِ بام تھا چاند کی چھائوں دھر دیا، ہم   نے بھی سوت کات   کے ہم تھے گرفتہ سر اگر، تم تھے شکستہ پر، مگر چل دیے ہاتھ ڈال کر، ہاتھ میں کائنات   کے رقص شعار ہو گئے، رزقِ مدار ہو گئے ہم تو فقط…

Read More