چھو کر حدِ فنا کو جوانی جواں ہوئی
جو آگ جل رہی تھی وہ آخر دھواں ہوئی
آمادہِ سفر کی نگاہیں تڑپ گئیں
سیٹی رُکی تو شام کی گاڑی رواں ہوئی
Related posts
-
عرفان صدیقی
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے -
شارق جمال ناگپوری
ڈس نہ لے دیکھو کہیں دھوپ کا منظر مجھ کو تم نے بھیجا تو ہے بل...