گماں کے دشت سے گزرا یقین کرتے ہوئے
میں آسمان کو اپنی زمین کرتے ہوئے
غمِ فراق کی کاٹی ہے رات سجدے میں
کسی کی یاد سپردِ جبین کرتے ہوئے
وہ کائنات کو جلوت میں لے کے آیا ہے
خود اپنے آپ کو خلوت نشین کرتے ہوئے
ہوا سے کہہ دو مرے صحن کے درختوں سے
کرے کلام تو لہجہ مہین کرتے ہوئے
مرے بدن کی کفالت کا بوجھ ہے مجھ پر
میں کام کرتا ہوں خود کو مشین کرتے ہوئے
میں بے خیالی میں کل رات گھر سے نکلا تھا
کئی ستاروں کو زیرِ نگین کرتے ہوئے
سنا کے اپنی کہانی اُنہیں رُلاتا ہوں
میں پتھروں کو یہاں سامعین کرتے ہوئے
میں اپنے اشک پلاتا ہوں ریگزاروں کو
کہ ذکر ہائے گل و یاسمین کرتے ہوئے