احمد ندیم قاسمی ۔۔۔ پھر بھیانک تیرگی میں آگئے

پھر بھیانک تیرگی میں آگئے
ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے

ہائے خوابوں کی خیاباں سازیاں
آنکھ کیا کھولی، چمن مرجھا گئے

کون تھے آخر جو منزل کے قریب
آئنے کی چادریں پھیلا گئے

کس تجلی کا دیا ہم کو فریب
کس دھندلکے میں ہمیں پہنچا گئے

اُن کا آنا حشر سے کچھ کم نہ تھا
اور جب پلٹے قیامت ڈھا گئے

اک پہیلی کا ہمیں دے کر جواب
ایک پہیلی بن کے ہر سو چھا گئے

پھر وہی اختر شماری کا نظام
ہم تو اس تکرار سے اکتا گئے

رہنمائو! رات ابھی باقی سہی
آج سیارے اگر ٹکرا گئے

جن کو ہم سمجھا کیے ابرِ بہار
وہ بگولے کتنے گلشن کھا گئے

کیا رسا نکلی دعائے اجتہاد
لیجئے، اگلے زمانے آ گئے

آدمی کے ارتقاء کا مدّعا
وہ چھپاتے ہی رہے، ہم پا گئے

اب کوئی طوفاں ہی لائے گا سحر
آفتاب ابھرا تو بادل چھا گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۹۴۷ء

Related posts

Leave a Comment