تھی اپنی اک نگاہ کہ جس سے ہلاک تھے
سب واقعے ہمارے لیے دردناک تھے
اندازِ گفتگو تو بڑے پر تپاک تھے
اندر سے قربِ سرد سے دونوں ہلاک تھے
ٹوٹا عجب طرح سے طلسمِ سفر کہ جب
منظر ہمارے چار طرف ہولناک تھے
اب ہو کوئی چبھن تو محبّت سمجھ اسے
وہ ربط خود ہی مٹ گئے جو غم سے پاک تھے
ہم جسم سے ہٹا نہ سکے کاہلی کی برف
جس کی تہوں میں خواب بڑے تابناک تھے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ ادا پریوں کی صورت حور کی آنکھیں غزالوں کی
ادا پریوں کی، صورت حور کی، آنکھیں غزالوں کی غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے... -
ماجد صدیقی ۔۔۔ وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے
وہ چنچل جب سے میرا ہو گیا ہے خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے وہ... -
محمد علوی ۔۔۔ ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں مگر پہچاننے والے کہاں ہیں کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں...