مدتوں میں بہَم ہوئے ماضی و حال دیر تک
ذہن میں پَر فشاں رہی ، گردِ ملال دیر تک
رہ نہیں پائے گی یہی صورتِ حال دیر تک
کس کا کمال دیر تک ! کس کا زوال دیر تک !
تیغ بکف سوار تو گرد اُڑا کے چل دیے
کانپتا رہ گیا وہاں ایک نہال دیر تک
اس کا جواب بھی وہی ، ایک طویل خامشی
دہر میں گونجتا رہا میرا سوال دیر تک
آنکھ وہیں ٹھہر گئی ، دل میں سکوت ہو گیا
اور پھر آ نہیں سکا اپنا خیال دیر تک
ساعتِ نو! صدا نہ دے ، لذّتِ درد! کچھ ٹھہرَ
دل میں یونہی چبھی رہے نوکِ ہلال دیر تک
ایک امینِ درد سے آج عجب غزل سنی
تَن سے مرے کٹا رہا دستِ کمال دیر تک