منکشف ذات کیوں نہیں کرتا
آئنہ بات کیوں نہیں کرتا
ایک دھن ہے کہ اس کو دیکھوں میں
وہ ملاقات کیوں نہیں کرتا
میرے صحرا میں پھول کھل اٹھیں
ایسی برسات کیوں نہیں کرتا
تیری نظروں سے کیا نہیں ممکن
تو کرامات کیوں نہیں کرتا
آشنائی کی آرزو ہے تجھے
تو سوالات کیوں نہیں کرتا
قطرہ قطرہ عنایتیں مجھ پر
غم کی بہتات کیوں نہیں کرتا
تیرے حالات بھی بدل جائیں
تو مناجات کیوں نہیں کرتا
اک معمہ ہی بن گیا ہے سعید
دل تری بات کیوں نہیں کرتا