عباس رضوی ۔۔۔۔۔۔ پسِ دیوار دریا دیکھتا ہوں

پسِ دیوار، دریا دیکھتا ہوں
میں اپنے خواب تنہا دیکھتا ہوں

میں آئینے کی حیرانی میں شامل
خود ا پنا ہی تما شا د یکھتا ہوں

جب اِن آنکھوں میں سرسوں پھولتی ہے
تو ہر منظر سنہرا دیکھتا ہوں

میں اکثر رات بھر بیدار رہ کر
نئے  خوابوں کا رستہ دیکھتا ہوں

سسکتے دیکھتا ہوں زندگی کو
قضا کو رقص کرتا دیکھتا ہوں

میں دریاؤں کو بادل سے اُتر کر
زمیں پر پاؤں دھرتا دیکھتا ہوں

کسی ناٹک کی تیاری میں اکثر
ہوا کو سانگ بھرتا دیکھتا ہوں

میں ہر غنچے کی بیتابی کے پیچھے
کسی گُل کا سراپا دیکھتا ہوں

میں آنکھیں بند کرلیتا ہوں تب بھی
کوئی گُل رنگ چہرہ دیکھتا ہوں

وہ آنکھیں میرے چہرے پر نہیں ہیں
میں جن آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں

Related posts

Leave a Comment