فرحان کبیر ۔۔۔۔۔۔ دل کو پژمردہ و بیمار نہیں چاہتے ہم

دل کو پژمردہ و بیمار نہیں چاہتے ہم
مختصر کہتے ہیں، بسیار نہیں چاہتے ہم

کتنے دروازے کھلیں مسکنِ جاں تک آتے
اور اس کو بھی ہَوادار نہیں چاہتے ہم!

مُوند لیں کس طرح آنکھوں کو، سمندر میں ہیں
اور جانا ابھی اُس پار نہیں چاہتے ہم

بُت بنا لیتے ہیں، بارش کا، کبھی بادل کا
اُس کی رحمت ہو نمودار، نہیں چاہتے ہم!

گُونج اُٹھنا تو الگ بات ہے، فرحان، یہاں
اپنے ہونے کا بھی اقرار نہیں چاہتے ہم

Related posts

Leave a Comment