بکھرا ہوا وجود منظم کرے کوئی
احساں یہ مجھ نحیف پہ پیہم کرے کوئی
دو چار دن کا گریہ نہیں عمر بھر کا ہے
میری طرح سے آنکھیں ذرا نم کرے کوئی
تنہا دلوں کی ویسے بھی رکھتا خبر ہے کون
اک بے نوا کے رنج ہیں کیا غم کرے کوئی
محبوب کے مزاج کا ہر رنگ منفرد
شائستگی سے یار کو برہم کرے کوئی
جو تجھ سے دْور ہو وہ کہاں صبر کر سکے
تجھ سے بچھڑ کے کیسے نہ ماتم کرے کوئی
دنیائے ہست و بود کا ہر کونہ چھان دوں
مجھ کو ترا پتہ جو فراہم کرے کوئی