گل فراز ۔۔۔ نہیں ایسا کمی ہے کوئی یا اچھی نہیں ہے

نہیں ایسا کمی ہے کوئی یا اچھی نہیں ہے
مگر جو چیز مجھ کو چاہیے ویسی نہیں ہے

ہمیشہ کامیابی ہی ملی ہے مجھ کو اس میں
خسارہ کام وہ ہے جس میں ناکامی نہیں ہے

اگرچہ ثابت و سالم نکل آیا وہاں سے
مگر وہ پہلے جیسی بات جو باقی نہیں ہے

جو چپ ہوں تو نہیں ایسا کہ تجھ سے متفق ہوں
یہ ہاں میں ہاں ملانے والی خاموشی نہیں ہے

نہ رکھ دے خوار کر کے جو، بھلا وہ زندگی کیا
بھلا کس کام کا وہ وقت جو بھاری نہیں ہے

محبت ہی نہیں ہے وہ جو بربادی نہ کر دے
اور اس کو درد کیوں کہنا جو طولانی نہیں ہے

نہیں ہو تم، مگر اور کیا نہیں ہے اب مرے پاس
گو اس میں مجھ کو ذرہ بھر بھی دل چسپی نہیں ہے

بدن کی سیر سے بڑھ کر کہاں ہو گی کوئی چیز
کہ اور اس طور صحت مند سرگرمی نہیں ہے

میں اب بھی سطح پر مر مٹنے والا آدمی ہوں
مگر اب چاہتا ہوں وہ بھی جو سطحی نہیں ہے

رہائش مجھ میں رکھو، اے بھٹکتے پھر رہے درد!
تجھے آبادیوں میں تو جگہ ملنی نہیں ہے

Related posts

Leave a Comment