ابرار احمد

میرے پاس کیا کچھ نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پاس
راتوں کی تاریکی میں کھلنے والے پھول ہیں اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی روشنی ہے اور بینائی ۔۔۔
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے اور یاد ۔۔۔
میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ ۔۔۔۔
میں آسمان کو اوڑھ کر چلتا اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں ابدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
جنگل جھومتے ، بادل برستے ، مور ناچتے ہیں
میرے سینے میں ایک سمندر نے پناہ لے رکھی ہے
میں اپنی آگ میں جلتا ، اپنی بارشوں میں نہاتا ہوں
میری آنکھوں میں
ایک گرتے ہوے شہر کا ملبہ ہے ۔۔۔ ایک مستقل انتظار
اور آنسو ۔۔۔
اور ان آنسوؤں سے پھول کھلتے
تالاب بنتے ہیں
جن میں پرندے نہاتے ہیں
ہنستے اور خواب دیکھتے ہیں
میری آواز میں بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس ، بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر
تیار کیا گیا ہے
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لیے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لیے کچھ باتیں ۔۔۔
میں رد کیے جانے کی خفت سے آشنا ہوں
اور پزیرائی کی دل نشیں مسکراہٹ سے بھرا رہتا ہوں
میرے پاس
ایک عاشق کی وارفتگی ، در گزر اور بے نیازی ہے
تمھاری اس دنیا میں میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے
وقت
اور تم پر اختیار کے سوا ۔۔۔

Related posts

Leave a Comment