اربابِ ذوق ۔۔۔ حبیب جالب

اربابِ ذوق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچے
دن بھر دفتر کو ٹرخایا
شام کو جب اندھیارا چھایا
محفل میں ساغر چھلکایا
پھول پھول بھنورا لہرایا، رات کے ایک بجے گھر پہنچے
گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچے
غالب سے ہے ان کو رغبت
میر سے بھی کرتے ہیں الفت
اور تخلص بھی ہے عظمت
گھر اقبال کے کھانے دعوت چھوٹی عمر میں اکثر پہنچے
گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچےحلقے میں اتوار منانا
ان کا ہے انداز پرانا
نئی ادائیں، نیا زمانہ
منٹو کا سننے افسانہ اکثر پہنے نیکر پہنے
گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچے
ناک پہ چشمہ سا اٹکائے
گردن میں ٹائی لٹکائے
انگلش لٹریچر کو کھائے
اردو لٹریچر پر ہائے کالج دینے لیکچر پہنچے
گھر سے نکلے کار میں بیٹھے، کار سے نکلے دفتر پہنچے

Related posts

Leave a Comment