بھولے بسرے شہر کے لیے ایک نظم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میناروں پر کچے آم کی خوشبو جیسی اک بے نام سی صبح
اور اس میں اک چھوٹے سے سر اور بڑے بدن کا
(شاہ دولے کے چوہے جیسا) آنکھیں مَلتا شہر
کب سے اونگھ رہا تھا
کہنہ قلعے کی دیواریں تو گردشِ دوراں چاٹ گئی تھی
رکن عالم کے روضے پر گداگروں کا قبضہ تھا
اور جالی میں جھانکتی کرنوں سے روزانہ
سورج آ کر منہ دھوتا تھا
خلقِ خدا بھی دیکھ کے اس کو شرماتی تھی
’ہوٹل تاج‘ کو جاتی رہ پر
لگے ہونّق پوسٹروں کو دیکھ کے شہر کو کھجلی آتی تھی
میناروں پر
کچے آم کی خوشبو جیسی دھوپ کو جب پہچان ملی تھی
خواجہ فرید نے میرے گھر کے دروازے پر
دستک دے کر پوچھا تھا
’’میں نے جو احساس کی گٹھڑی تجھ کو سونپی تھی
اُس کو کھول کے دیکھا ہے؟‘‘
تب میں دیپ جلے سے پہلے
شہر کو چھوڑ کے بھاگ آیا تھا