عرفان ستار ۔۔۔۔۔ سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گم ہو گیا ہے

سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گم ہو گیا ہے
بتا دوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گم ہو گیا ہے

تمھارے دن میں اک روداد تھی جو کھو گئی ہے
ہماری رات میں اک خواب تھا، گم ہو گیا ہے

وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی
کہانی میں کہیں وہ ماجرا گم ہو گیا ہے

ذرا اہلِ جنوں! آؤ، ہمیں رستہ سجھاؤ
یہاں ہم عقل والوں کا خدا گم ہو گیا ہے

نظر باقی ہے لیکن تابِ نظارہ نہیں اب
سخن باقی ہے لیکن مدعا گم ہو گیا ہے

مجھے دکھ ہے کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں
تمھارا اور میرا واقعہ گم ہو گیا ہے

یہ شدت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی
یقینا اور کچھ اُس کے سوا گم ہو گیا ہے

وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھلیں گی
ہماری زندگی کا وہ سِرا گم ہو گیا ہے

وہ دَر وا ہو نہ ہو، آزاد و خود بیں ہم کہاں کے
پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ گم ہو گیا ہے

Related posts

Leave a Comment