تو پھر اک نظم اگتی ہے… ارشد معراج

تو پھر اِک نظم اُگتی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی آوارہ جھونکا
موسموں کے ہاتھ سے پھسلے
تو میں اس کی صداؤں کے تعاقب میں نکلتا ہوں

اسے میں ڈھونڈتا ہوں
شاخ پر تنہا لرزتے آخری پتے کی ہچکی میں
کبھی ویران مندر کے اکھڑتے پتھروں سے جھانکتے پیپل کے پودے میں
کبوتر کے بکھرتے آہلنے میں
اور کبھی مکڑی کے جالے میں
کبھی دریا کنارے ڈار سے بچھڑی ہوئی کونجوں کے گیتوں میں
جہاں پر ہجر بہتا ہے

اسے میں ڈھونڈتا ہوں
اپنے کمرے میں پڑے بستر کی سلوٹ میں
جہاں پر جانے کتنے خواب بکھرے ہیں
جہاں پر ساتھ جینے، ساتھ مرنے کی کئی قسمیں کئی وعدے پڑے ہیں
منہ چڑاتے ہیں

اسے میں ڈھونڈتا ہوں
شبنمی آنکھوں کی جھلمل میں
کبھی گالوں کی سرخی میں
پڑوسن کی کلائی میں کھنکتی سرخ دھانی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ میں
ہر اک دستک کی آہٹ میں

کسی دن پھر اچانک ہی دبے پاؤں وہی جھونکا مرے اندر اترتا ہے
تو خستہ تن مکانوں کے کواڑوں سے پھسلتی خواہشیں اودھم مچاتی ہیں
ہتھیلی پر پڑا مہندی کا پتا رقص کرتا ہے
سہانی رت مچلتی ہے
گھنی کالی گھٹائیں شور کرتی ہیں
زمینیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں رنگ اور لاکھوں شگوفے کھلکھلاتے ہیں
مہکتی روشنی مہمیز بنتی ہے!

Related posts

Leave a Comment