پھول مالا (قوم کی لڑکیوں سے خطاب) ۔۔۔۔۔۔ پنڈت چکبست برج نارائن

پھول مالا
(قوم کی لڑکیوں سے خطاب)
…………………………
روشِ خام پہ مردوں کی نہ جانا ہرگز
داغ تعلیم میں اپنی نہ لگانا ہرگز

نام رکھا ہے نمایش کا ترقی و رِفارم
تم اِس انداز کے دھوکے میں نہ آنا ہرگز

رنگ ہے جن میں مگر بوئے وفا کچھ بھی نہیں
ایسے پھولوں سے نہ گھر اپنا سجانا ہرگز

نقل یورپ کی مناسب ہے مگر یاد رہے
خاک میں غیرتِ قومی نہ ملانا ہرگز

خود جو کرتے ہیں زمانے کی روش کو بدنام
ساتھ دیتا نہیں ایسوں کا زمانا ہرگز

خود پرستی کو لقب دیتے ہیں آزادی کا
ایسے اخلاق پہ ایمان نہ لانا ہرگز

رنگ و روغن تمھیں یورپ کا مبارک، لیکن
قوم کا نقش نہ چہرے سے مٹانا ہرگز

جو بناتے ہیں نمایش کا کھلونا تم کو
اُن کی خاطر سے یہ ذلت نہ اٹھانا ہرگز

رُخ سے پردے کو اُٹھایا تو بہت خوب کیا
پردۂ شرم کو دل سے نہ اٹھانا ہرگز

تم کو قدرت نے جو بخشا ہے حیا کا زیور
مول اس کا نہیں قاروں کا خزانا ہرگز

دل تمھارا ہے وفاؤں کی پرستش کے لیے
اس محبت کے شوالے کو نہ ڈھانا ہرگز

پوجنے کے لیے مندر جو ہے آزادی کا
اس کو تفریح کا مرکز نہ بنانا ہرگز

نقد اخلاق کا ہم نل کی طرح ہار چکے
تم ہو دیننت یہ دولت نہ لٹانا ہرگز

خاک میں دفن ہیں مذہب کے پرانے پاکھنڈ
تم یہ سوتے ہوئے فتنے نہ جگانا ہرگز

اپنے بچوں کی خبر قوم کے مَردوں کو نہیں
یہ ہیں معصوم انھیں بھول نہ جانا ہرگز

ان کی تعلیم کا مکتب ہے تمھارا زانو
پاس مردوں کے نہیں ان کا ٹھکانا ہرگز

کاغذی پھول ولایت کے دکھا کر ان کو
دیس کے باغ سے نفرت نہ دلانا ہرگز

نغمۂ قوم کی لَے جس میں سما ہی نہ سکے
راگ ایسا کوئی ان کو نہ سکھانا ہرگز

پرورش قوم کی دامن میں تمہارے ہوگی
یاد اس فرض کی دل سے نہ بھلانا ہرگز

گو بزرگوں میں تمھارے نہ ہو اس وقت کا رنگ
ان ضعیفوں کو نہ ہنس ہنس کے رُلانا ہرگز

ہو گا ‘ پرلے’ جو گرا آنکھ سے ان کی آنسو 
بچپنے سے نہ یہ طوفان اٹھانا ہرگز

ہم تمھیں بھول گئے، اس کی سزا پاتے ہیں
تم ذرا اپنے تئیں بھول نہ جانا ہرگز

کس کے دل میں ہے وفا، کس کی زباں میں تاثیر
نہ سنا ہے نہ سنو گی یہ فسانا ہرگز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۹۱۷ء

Related posts

Leave a Comment