تہِ ریگ ِ رواں پانی ہے شاید
ذرا ٹھہرو یہاں پانی ہے شاید
فرات ِ وقت پر پہرے لگے ہیں
لہو سے بھی گراں پانی ہے شاید
کبھی تھا تخت اس کا پانیوں پر
اب اس کا آسماں پانی ہے شاید
خدا کا رازداں کوئی نہیں ہے
خدا کا رازداں پانی ہے شاید
جو سبط ِ ساقی ِ کوثر ہے دیکھو
اسی کا امتحاں پانی ہے شاید
یہ آتش میں گھرے خیمے، یہ آہیں
سکینہ کی فغاں پانی ہے شاید
ستم کی داستاں یہ بھی سناتا
کہے کیا بے زباں پانی ہے شاید
ہمارے درمیاں بھی جنگ ہو گی
ہمارے درمیاں پانی ہے شاید
شہادت پا کے جنت میں گئے ہیں
وہ جنت ہے وہاں پانی ہے شاید
یہ خاک ِ کربلا پیاسی رہے گی
یہاں نا مہرباں پانی ہے شاید
مری آنکھیں بھی بھر آئی ہیں باقی
یہ ساری داستاں پانی ہے شاید
(باقی احمد پوری)