ریحانہ روحی
رہائی مشرقی عورت کی کیا اسیری کیا
یہاں قفس سے قفس تک اُڑان ہے اور بس
میں اکثر نسائی شاعری میں ترقی پسند اور خانگی تانیثیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یا نسائی اسلوبِ بیاں میں اظہار کے مسائل پر کچھ تحریر کرتے ہوئے، مذکورہ بالا شعر کا حوالہ ضرور دیتا ہوں۔ یہ خوب صورت شعر نسائی شاعری کے ارتقا میں کئی شاعرات کی بنیادی فکر کی عکاسی کرتا ہے۔یہ شعر معروف شاعرہ ریحانہ روحی کا ہے جو کافی عرصہ وطن سے دور الخبر (سعودی عرب) میں مقیم رہی ہیں۔ اب پاکستان میں ہیں۔اندرون اور بیرون ملک صاحبانِ ذوق مشاعروں میں انہیں سننا چاہتے ہیں:
میں بھی دنیا کی طرح جینے کا حق مانگتی ہوں
اِس کو غداری کا اعلان نہ سمجھا جائے
میری پہچان کو کافی ہے اگر میری شناخت
مجھ کو پھر کیوں مری پہچان نہ سمجھا جائے
٭
ہم نے کبھی رکھا ہی نہیں ہے حسابِ عشق
تو ہی ہمارا نفع ہے تو ہی خسارا دوست
٭
روحی میں خوابِ عشق سے جاگی تو اُس کے بعد
کتنے ہی ماہ و سال نے سونے نہیں دیا
٭
اتنی تاخیر سے مت مل کہ ہمیں صبر آ جائے
اور پھر ہم بھی نظر تجھ سے چرانے لگ جائیں
انہوں نے جس طرح عشق و محبت کے رموز کو لطفِ شعر سے آشنا کیا ہے، اُسے پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے کلام کی رعنائی، حسن و تاثیر، چاشنی اور گداز فکر و فن کی جمالیاتی و حسی اقدار سے پیوستہ ہے۔اُن کے ہاں احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ کیفیات و واردات کی کمی نہیں، اُن کے ساتھ ریحانہ کا رشتہ غیر فانی ہے مگر شاعرہ کی ہُنر مندی یہ ہے کہ تکرار کا احساس نہیں ہوتا۔عشق اُن کی بے قرار روح کی ایک ایسی نادیدہ و پیچیدہ سچائی ہے جس نے شعر کا روپ دھارا ہے۔جذبۂ عشق کی ایک لہر جس میں بے خوفی ہے جسے بعض ناقدین نے تخلیقی اظہاریے میںعمومی سماجی اقدار سے ٹکراؤ قرار دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل میں دیوانہ وار آگے بڑھتی ہیں۔اپنے وجود کا ادراک کرتے ہوئے اُس کا اقرار چاہتی ہے:
ابھی ہم کاسۂ دنیا میں ہیں سونے کا سکّہ
ابھی کشکول میں تھوڑی جوانی رہ گئی ہے
٭
اپنے جذبات میں شدت کی لگن مانگتا ہے
ہجر ضد پر اگر آئے تو بدن مانگتا ہے
٭
یہ جسم و جان کی آہٹ ہے روحی
محبت گفتگو کا مسئلہ نہیں
اُن کا شعری مجموعہ ’’عشق زاد‘‘ ۲۰۰۰ء میں منظر عام پر آیا تو ادب کے سنجیدہ قارئین نے رائے دی کہ ا نفرادی سطح پر اُن کا اسلوبِ بیاں کسی ہم عصر شاعرہ سے مماثلت نہیں رکھتا۔اُن کے ہاں لب و لہجے اور اظہار و بیان میں جرأت و حوصلہ مندی ہے مگر اسالیب و فکریات کے حوالے سے اِس قدر بغاوت نہیں کے اُسے کسی اختلاف کی بنیاد پر Controvertial کہا جائے۔ویسے بھی انہوں نے روایت و کلاسیکیت سے کہیں فکری و اسلوبیاتی انحراف نہیں کیا۔یہ ضرور ہے کہ سپردگی و وارفتگی کی کیفیت سے مغلوب ایک انسان ہے جو محبت میں دل و دماغ ہار چکا ہے، ہجر و فراق میں رتجگوں کے آلاؤ آنکھوں میں جلائے ہوئے ہے اور اب اپنے نازک احساسات کو تخلیقی رنگ دینے میں مگن ہے:
بادشاہی کے وہ قابل نہیں نکلا پھر بھی
تختِ دل سے اُسے معزول نہیں کر پائی
٭
مصروفیت اُسی کی ہے فرصت اُسی کی ہے
اِس سر زمینِ دل پہ حکومت اُسی کی ہے
٭
تیری گلی کو چھوڑ کے جانا تو ہے نہیں
دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ تو ہے نہیں
اُن کے ہاں مادی جسم کی ضرورتیں ایک سفّاک حقیقت کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ فکر کسی دوسری شاعرہ کے ہاں تخلیقی تجربہ کم کم ہی بنا ہے مگر کسی سے نسبت اگر دی جا سکتی ہے تو وہ کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض ہیںلیکن ایک بات واضح کر دوں کہ اِس میں کج روی ہر گز نہیں ہے اور کہیں بھی جنسی مسائل کا اظہار میرا جی کی طرح عریاں نہیں ہے کہ افزائشِ نسل کے ویشنو عقائد در آئیں اور کوئی سماجی ردِ عمل سامنے آ جائے:
پہلے نویدِ وصل مری نیند لے اُڑی
پھر نشۂ وصال نے سونے نہیں دیا
٭
ترے لباس کی خوابیدہ سرسراہٹ کو
بہت دنوں سے مرا پیرہن پکارتا ہے
پھر پسِ وصل ترے لمس کی خوشبو کے لیے
اپنے آپے سے لپٹ جانے کو جی چاہتا ہے
عمومی طور پر انہوں نے ایسی بے رنگ اور سپاٹ سچائیوں سے اجتناب کیا ہے کہ جو سخن کو شعریت سے تہی دامن کر دیں۔پھربھی اُن کی غزل کے مذکورہ بنیادی مضامین اپنی جگہ مگر انہیں زندگی کے پیچ و خم اور مسائلِ حیات کا بھی مکمل ادراک ہے۔اُن کے غزلیہ اثاثہ میں رہگزارِ حیات میں کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک عام انسان کی حیات میں تلخیوں کا بھی شعور ہے۔کچھ چیزیں ایک تخلیق کار ہونے کے ناتے انہیں شرفِ انسانی کے خلاف لگتی ہیں۔اسے انسان دوستی یا غم خواری بھی کہا جا سکتا ہے۔ایسے اشعار بھی اپنی درد ناکی کے ساتھ ذہن و دل کے دریچوں کو وا کرتے ہیں۔بلا شبہ اُن کا یہ ملال بھی اشعار کو درد مندی کی دولت سے مالا مال کر رہا ہے:
جو بھیک مانگتے ہوئے بچے کے پاس تھا
اُس کاسۂ سوال نے سونے نہیں دیا
٭
تو زمینوں پہ اُتر کر جو گزاری اک دن
آسمانوں کے خدا تجھ کو بھی حیرت ہو جائے
٭
ہجومِ عکس ہے اور آئینہ صفت ہوں میں
سو میرے جتنے بھی دکھ ہیں وہ آگہی کے ہیں
کسی قبا کو میسر ہے فاخرہ ہونا
کسی لباس میں پیوند مفلسی کے ہیں
٭…٭