فہمیدہ اختر
تقسیمِ ہند سے پہلے موجودہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑا افسانہ نگار پیدا نہیں ہوا۔ ایک نام نصیر الدین نصیر کا سامنے آتا ہے جو ۱۹۳۰ ء تک افسانے لکھتے رہے۔اُن کے افسانے زیادہ تر اصلاحی رنگ میں اور وعظ و نصیحت پر مبنی تھے۔اُن کے افسانے ادبی جرائد میں تو شائع ہوتے رہے مگر کوئی مجموعہ طبع نہیں ہوا۔ فہمیدہ اختر خیبر پختونخوا کی اُن نمایاں افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کی کہانیوں کے پلاٹ آزاد فضاؤں میں سانس لینے والے محنت کش اور غریب مگر غیرت مند اور مہمان نواز لوگوں کی زندگیوں کے گرد گھومتے ہیں۔اُن کے کردار کم علم، دیہاتی اور سادہ ضرور ہیں مگر بے حد مہمان نواز اور محبت افروز ہیں۔ یہی اُن کی بڑی خوبی ہے کہ اُن کی فکر اور فن میں مقامی مٹی اور تہذیب و ثقافت کی خوشبو ہے جو قاری پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ناقدینِ فن ایک بات پر متفق ہیں کہ ہر بڑی تخلیق میں مقامی رنگ ضرور ہوتا ہے۔اُن کے دو افسانوی مجموعے پہلا ’’اپنے دیس میں‘‘ ۱۹۶۱ء میں اور دوسرا ’’کشمالہ‘‘ ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئے۔ جن میںفہمیدہ نے سرحد کے دیہاتی ماحول یہاں کے روایات اور اقدار کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے نچلے طبقے کے افراد اور ان کی زندگیوں سے جُڑی ہوئی کہانیوں کو پیش کیا، اِس لیے کہ اُن کے زیادہ تر مشاہدات کا محور و مرکز یہی لوگ تھے۔یوں اُن کی تخلیقات میں صرف خوشحال گھرانوں کو موضوع نہیں بنایا گیا۔ پشتون معاشرہ کے بنیادی جذبوں مثلاً غیرت، مہمان نوازی، شجاعت اور دلیری سے فہمیدہ کے افسانوں کی کہانی بنتی ہے جو غریب ہیں، سادہ اور معصوم ہیں۔اُن کے عمومی سادہ انداز کی زندگیاں گزارنے والے معصوم بچے بھی افسانوں کا خاص موضوع ہیں۔ ان کے اہم افسانوں میں ’’شاداب وادی کا پیرو‘‘، ’’سیبوں اور ناشپاتیوں کے جھنڈ میں‘‘، ’’ندی اور پھول‘‘، زر سانگہ‘‘، ’’دیوی‘‘، ’’دریائے باڑہ کی فاتح‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
٭