اکرم کنجاہی ۔۔۔ نثار بٹ عزیز

نثار عزیز بٹ

نثار عزیز بٹ نے ناول کے علاوہ کسی صنفِ ادب میں نہیں لکھا، البتہ اُن کے سوانح حیات ’’گئے دنوں اک سراغ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔عالمی اور روسی ادب پر اُن کی گہری نظر تھی۔ نثار کا پہلا ناول’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘ ۱۹۵۴ء میں منظر عام پر آیا تھا۔پھراُن کے دوسرے ناول’’نے چراغے نے گلے‘‘ ۱۹۷۳ء نے اشاعت کی منزلیں طے کیں اور ۱۹۸۰ء کے اواخر میں انہوں نے’’کاروانِ وجود‘‘ پیش کیا تھا۔ ان کے ناقدین نے انہیں وہ مقام نہیں دیا جس کی وہ مستحق تھیں۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں نا قدین کی تمام تر توجہ شاعری کی جانب مائل رہی ہے۔ جس کی بنا پر فکشن کی تنقید خاص طور پر ناولوں پر اچھے تجزیاتی اور معروضی مضامین کی کمی کی وجہ سے اب تک نظرانداز شعبہ ادب ہے۔
’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘ کا مرکزی کردار افگارایک یتیم بچی اور تپ دق کی مریضہ ہے۔وہ ساری جد و جہد اس بات پر کرتی ہے کہ اُس کے چاہنے والے اُس کے قریب نہ آ ئیں۔وہ کسی قسم کے داغ کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنانا چاہتی۔اُس کا کردار ہمت اور حوصلے والا ہے۔آخر میں کمال انور کے شکل میں اُسے ساتھ مل جاتا ہے اور جینے کا جواز بن جاتا ہے۔دوسرے ناول ’’نے چراغے نے گلے‘‘ میںعلاقائی رسم و رواج کی خوب عکاسی کی گئی ہے۔ صوبہ پختونخواہ کا ثقافتی اور تہذیبی پس منظر موجود ہے۔اِس ناول میں کچھ حد تک تحریکِ آزادی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔تقسیمِ ہند کے وقت برپا ہونے والے فسادات و خون ریزی کا بیان ہے۔ایک کردار خورشید کے مطابق انسان مجموعۂ ضدین ہے گرتا ہے تو سانپ، بچھو سے خطرناک ہو جاتا ہے، اٹھتا ہے تو مسیحا،فلسفی اور فنکار بن جاتا ہے۔
اُن کا تیسرا ناول کاروانِ وجود بہت محدود کینوس کا حامل ہے اورنگری نگری پھرا مسافر کی جانب مراجعت کا سفر ظاہر کرتا ہے۔اِس ناول کے کرداروں میں ثمر صالح،سارہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ثمر صالح کی والدہ زینب، امینہ، سعید، زبیدہ، نوشابہ، شاہنواز اور جرمن لڑکی کیتھرین بھی اہم کردار ہیں۔سعید پہلے زبیدہ میں دل چسپی لیتا ہے مگر شادی کیتھرین سے کرتا ہے۔ ثمر زندگی سے متعلق منفی سوچتی ہے جب کہ سارہ کا رویہ ہر مقام پر مثبت دکھائی دیتا ہے۔وہ پر امید ہر کہ خیر کی فتح ہو گی۔متوسط طبقے کی کہانی دو تین خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ اُن کے قلم کی زد میں گزشتہ کئی دہائیوں کا پرآشوب سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تاریخی ماحول کی نفسیاتی تحلیل اور اس کے نازک خیالات و احساسات لمحہ بہ لمحہ بدلتی زندگی وقدریں سب ہی کچھ آ گیا ہے تاہم ناول بھی ایک سمندر ہے جہاں موضوعات کے پھیلاؤ کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ نثار عزیز بٹ اُن فنکاروں میں سے ایک ہیں جن کا فن خلوص و عبادت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ وہ ۱۹۵۴ء سے لے کر آج تک ناول کی تخلیق کے عمل سے وابستہ ہیں۔ ان کے مزید تین ناول نے چراغے نے گُلے، کاروانِ وجود، دریا کے سنگ منظر عام پر آئے۔ اس پورے عرصے میں ان کے یہاں اسلوبیاتی اور تکنیکی تبدیلیوں کوبھی ارتقا کے تناظر میں اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کا چوتھا ناول دریا کے سنگ دلچسپی کا حامل ہے۔ اب تک ان کے یہاں فوکس اور تھا یعنی افگار، جمال افروز، ثمر اور سارا۔انہوں نے عورت ہی کے حوالے سے دنیا کو دیکھا تھا۔ اب جب کہ ان کی ناول نگاری کو کئی عشرے ہو گئے تو انہوں نے عورت اور مرد دونوں کے حوالے سے اپنی بات کو پیش کیا۔ دریا کے سنگ میں فوکس ساجد ہے جس کے جلو میں اس کی بیوی کو ثرہے۔ لندن میں رہنے والی ناآسودہ لڑکی ثریا ہے۔۲۰۲۰ میں گزشتہ دنوں ، وہ خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔
٭…٭…

Related posts

Leave a Comment