نذر سجاد حیدر
نذر سجاد حیدرکا شمار اُردو کی اولین خواتین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے متعدد مضامین اور مختصر کہانیوں کے علاوہ اصلاحی و معاشرتی ناول بھی لکھے۔ نذر سجاد حیدر نے بیسویں صدی کے اوائل میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا۔ یہ سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا دور تھا۔ ایک طرف لوگ انگریزی حکومت کے خلاف حصول آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندوستان کے روایتی معاشرتی ڈھانچے میں زبردست تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔انہوںنے کئی ناول لکھے جن میں اختر النسا، آہ مظلوماں،نجمہ اور حرماںنصیب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اپنے معاشرے کی خانگی زندگی میں پنپنے والے مسائل اور سماجی روایات کو جس خوبی سے اجاگر کیا ہے وہ یقینا معاشرتی زندگی کی آئینہ دار ہے۔
ان کا مشہور ناول اختر النسا ہے جو ۱۹۱۰ء میں شائع ہوا۔اس ناول کے بارے میں قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں کہ امی نے چودہ سال کی عمر میں انتہائی ترقی پسند اصلاحی ناول لکھا جس کی ہیروئن اخترالنسابیگم مردوں کے معاشرے کے مظالم کا نہایت بلندحوصلے سے مقابلہ کرتی ہے اور آخر میں فتح مند ہوئی۔ اسے اپنی زندگی میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اس نے اپنے اندر صرف تعلیم و تربیت کی تمام مشکلات کو تیز کرنے کا حوصلہ پیدا کیا اور ایک باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ ان کے پہلے ہی ناول میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی تصویریں سامنے آتی ہیں، توہم پرستی جہالت اور بے بنیاد رسم و رواج کے غلط نظریوں کو پیش کیا گیا ہے۔اختر النسا کا کردار آئیڈیل کردار ہے۔وہ ایک تعلیم یافتہ، با کردار اورشریف ہندوستانی لڑکی ہے جوصرف تعلیم و تہذیب کے زیور سے آراستہ نہیں بلکہ دور اندیشی اور قوم پرستی بھی اس کے کردار کا حصہ ہے۔یہ ایک اصلاحی ناول ہے جس میں مصنف نے مسلم سماج میں پھیلی ہوئی جہالت، توہم پرستی اور غلط رسم و رواج کی برائیوں کو پیش کیا ہے اور تعلیم نسواں کی اہمیت و ضرورت اور اس کی افادیت کو بڑی خوبی سے نمایاں کیا ہے۔
آہِ مظلوماں نذرسجاد کا مشہور ناول ہے، اس ناول میں دو طبقوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے پر جس قسم کے غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں نذر سجاد حیدر اس کی طرف نشاندہی کی ہے جو اس ناول کا موضوع ہے۔ اس طرح کی شادیاں نہ صرف نچلے طبقے کے لیے وبال جان ثابت ہوتی ہے۔ نذر سجاد حیدر کے ناولوں کے موضوعات ایک عام زندگی کی سچائی اور حقیقت کو پیش کرتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں رومانوی عناصر بھی بھرپور انداز میں ملتے ہیں چونکہ رومانوی فضا اور ماحول اس عہد کا مزاج بن گئے تھے۔وہ آزادیٔ نسواں،اورتعلیمِ نسواں کی تحریک کے موثر رکن رہی ہیں۔ اس زمانے کے مختلف رسائل تہذیبِ نسواں، خاتون، عصمت میں شائع ہونے والے مضامین ان کی ذاتی جدوجہد کا واضح ثبوت ہیں۔مضامین اور افسانوں کے علاوہ ان کے تمام ناول اُن کی سیاسی جدوجہد کا ثمر ہیں۔
نذر سجاد حیدر کا ناول جانباز سیاسی حالات پر مبنی ہے اور وطن پرستی ناول کا موضوع ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی سودیشی تحریک کی سرگرمیوں کو نمایاں کیا گیا ہے بلکہ آزادی کی پرجوش جدوجہد کے ساتھ ساتھ مغربی اور مشرقی طرز حیات کو خوبصورت اندازسے پیش کیا گیا ہے جو مطلب پرستی کے جذبات سے سرشار نظر آتی ہے۔ ایک مغربی تہذیب کا دلدادہ شخص قمر اور زبیدہ منگنی سے پہلے ایک دوسرے کو چاہا کرتے تھے۔قمرزبیدہ کو مغربی زندگی میں ڈالنا چاہتا ہے لیکن زبیدہ کو اپنے وطن اور مشرقی اقدارسے بے حد پیار ہے، وہ ان اقدار کو خیر باد کہنے کو تیار نہیں۔ بعد ازاں قمر اسے نظر انداز کر کے ایک مغربی مزاج کی خاتون سے شادی کر لیتا ہے۔ زبیدہ تلخ یادوں کو بھلانے کے لیے قومی اور سیاسی امور میں مشغول ہو جاتی ہے۔ عدم تعاون کی تحریک میں برابر پیش پیش رہتی ہے۔
صغریٰ ہمایوں نے جس عہد میں ناول لکھے، اُس عہد میں خواتین کی سوچ کا دائرہ بہر حد تک محدود تھا۔البتہ صغریٰ ہمایوں اور اُن کی ہم عصر خواتین ناول نگاروں نے بھی دیانت داری سے گھریلو زندگی میں پیش آنے والے مسائل کومحسوس کروایا ہے۔ اُن کا ناول سرگزشت ہاجرہ اس عہد کی سیاسی سرگرمیوں، حالات کی تبدیلی،سیاسی ناپائیداری اور سماجی ہلچل کی تصویر کشی موثر انداز میں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو مشرقی اقدار اور معیار کی روشنی میں کامیابی کے ساتھ برتا ہے اور جگہ جگہ مغربی تہذیب کی روایات اور اس کی شوخیوں کو بھی نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔ صغریٰ ہمایوں کے دوسرے ناول مشیر نسواں میں جدید اور قدیم تہذیبی زندگی اور انگریزی طرز حیات سے آراستہ عمارتیں اور مکانات کی تصویر نظر آتی ہیں۔ اس میں جدید تعلیم کی حصو لیابی اور روشن خیالی کے نہ صرف احساسات ملتے ہیں بلکہ یہ جذبہ بھی ابھرتا ہے کہ کسی قوم کے رسم و رواج کی آنکھ بند کرکے تقلید کرنا فضول ہے البتہ اس کے صحت مند انہ رویوں کو سیکھنا، دیکھنا اور اپنانا چاہیے۔ مشیر نسواں کی ہیروئن بھی نذیر احمد کی ہیرو ئن کی طرح تعلیم و تربیت، اخلاقی مقاصد اور اصلاح رسوم اور زندگی کے گو نا گوںمسائل سے نبرد آزما رہتی ہے۔ اُس دور میں خواتین کے ناولوں کا فنی تجزیہ کریں توحقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کے ناولوں کو سخت گیر فنی روشنی میں پرکھنا مشکل ہے۔ ان کے ناولوں میں ناول کے اجزائے ترکیبی مثلاً پلاٹ و کردار وغیرہ موجود ہیں مگر کئی حوالوں سے ناول فنی اصولوں پر پورے نہیں اُترتے۔یہ معاملہ اُس دور کی اکثر ناول نگار خواتین کے ساتھ ہے۔ نذر سجاد حیدر کے ناولوں کی ادبی حیثیت سے قطع نظر، ایک خاتون کی تصنیف ہونے کے ناتے، ان کے ناولوں کی ایک تاریخی حیثیت بنتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت کے جسم پرصدیوں تک مردوں نے اپنی اجارہ داری سمجھی ہے،وہ خواتین کو ایک ایسی زندگی جینے کی دعوت دیتی ہیں جس میں عورت کا اپنا ایک مقام ہو۔ اُس کی اپنی سوچ ہو جس کے مطابق وہ نا انصافیوں سے بالاتر ہو کر زندگی گزار سکے۔ اس کے ساتھ ہی یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو توہم پرستی ہے اور غلط قسم کے رسم و رواج ہیں وہ کس قدر نقصان دہ اور غیر اخلاقی ہیں۔
٭…