اکرم کنجاہی ۔۔۔ کشور ناہید

کشور ناہید

کشور ناہید کی ابتدائی شاعری میں رومان انگیزی، محبت کی خواب ناک کیفیات اور کسی حد تک جنسی محرومیاں نمایاں تھیں۔بعد ازاں ’’عروسی‘‘ اور ’’رات آتی ہے‘‘ جیسی نظموں میںعورت کی تشنہ آرزوئیں جھلکتی محسوس ہوتی ہیں۔گویا تجربات و مشاہدات میں اضافے کے ساتھ انہوں نے عورت کی نفسیاتی گتھیوں کو بھی سمجھاجو اُن کی تخلیقات کا اہم موضوع بھی بنا۔کشور ناہید کا تخلیقی کینوس اکثر ہم عصروں سے زیادہ وسیع ہے، اِس لیے کہ مغربی ادب پر بھی اُن کی نظر ہے مگر وہ مشرقی ذہن سے سوچتی اور غور و فکر کرتی ہیں۔اُن کے متعدد شعری تراجم، سفر نامہ، خود نوشت، شعری مجموعے، کالم، نثری تخلیقات، تالیفات سامنے آ چکی ہیں۔بہر حال یہ حقیقت ہے کہ ادا جعفری اور کشور نے روایت کو ادبی اور سماجی دونوں اعتبار سے توڑا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُسے باغی عورت کی آواز بھی کہا گیا۔اِس لیے کہ اُنہوں نے سپردگی کو چھوڑ کر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔اپنی شاعری میں ایسے موضوعات پر بات کی جنہیں بیان کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ایسے میں اکثر ناقدین اُن کی شاعری کو سپاٹ، کھردری اور غنائیت سے محروم قرار دیتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں عورت کا وجود اس کا احساس اور اسی کی آواز گونجتی ہے۔وہ اپنے آپ کو ایک حقیقت پسند خاتون قرار دیتی ہیں جو حالات یا معاشرے کے جبر کا شکار بننے سے منکر رہی ہے۔
وہ ایک با شعور شاعرہ و ادیبہ ہیں جن کی اپنے گردو پیش کے سیاسی و سماجی حالات پر گہری نظر ہے۔ بیسویں صدی کے آخری پچیس تیس برسوں میں بہت سی ایسی شاعرات نمایاں ہوئیں مثلاً فہمیدہ ریاض، شبنم شکیل، عرفانہ عزیز، پروین شاکر،عذرا عباس، ماہ طلعت زاہدی، ڈاکٹر غزالہ خاکوانی وغیرہ جنہوں نے شاعری کو موضوعاتی تنوع اور تازہ کاری سے آشنا کیا۔بلا شبہ کشور ناہید کا نام اُس کارواں میں سب سے معتبر بھی کہا جا سکتا ہے۔اُنہوں نے تانیثیت کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں اور عصری مسائل پر بھی خوب بات کی۔اِن شاعرات میں اگر رجحان ساز کہا جائے تو ادب کے قاری مجھ سے اتفاق کریں گے کہ وہ کشور ناہید اور پروین شاکر ہی ٹھہرتی ہیں۔اپنی سوچ اور فکر کے حوالے سے اِن کا ذہن زیادہ زر خیز تھا، یہی وجہ ہے کہ عصر ی صداؤں میں اُن کو توجہ سے سنا گیا۔موصوفہ کے ہاںخوف، گھٹن، جبر،اظہار کی خواہش،محرومی،نسوانی پامالی، تشنگی اور دکھ درد سب عورت کے حوالوں سے پُر اثر اُسلوب میں ملتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُنہوں نے عورت کے وجود کو الگ رکھ کر دنیا کو دیکھا اور صنفی مساوات کی بات کی۔باقر مہدی نے اُن کی غزل کے حوالے سے چند اہم باتیں کہی تھیں:’’کیا اِن اشعار میں دروں بینی، نغمہ اور فکر خیزی نہیں ہے؟ کیا اِن میں تاثرنہیں ہے، کیا یہ صرف ’’جدید‘‘ ہیں؟ کیا اِن کا غزل کی کلاسیکی روایت سے کوئی تعلق نہیں؟‘‘ بلا شبہ، خیالات کے ساتھ ایسے اشعار کا حوالہ موجود تھاجو اِن سوالات میں مضمر سچائی کی تصدیق کر رہا تھا۔اُن کے مجموعۂ غزل ’’لبِ گویا‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔اِس مجموعۂ کلام کے مطالعے کے بعد کم از کم بہت سے ناقدین کی رائے کہ اُن کا کلام سپاٹ، رسیلے پن سے عاری یا محض بیانیہ ہے غلط ثابت ہو جاتا ہے:
اک پل کسی درخت کے سائے میں سانس لے
سارے نگر میں جاننے والا کوئی تو ہو
اے خوئے اجتناب تعلق کہیں کو رکھ
بے چارگی میں پوچھنے والا کوئی تو ہو
٭
ڈھونڈا اُسے بہت کہ بلایا تھا جس نے پاس
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا
٭
ابھی تلک مرے کانوں پہ آگ رقصاں ہے
ابھی تلک ہے اُسی انجمن کی آنچ نہ پوچھ
٭
جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
دیوارِ زندگی میں دریچہ کوئی تو ہو
٭
تو اشک ہی بن کے مری آنکھوں میں سما جا
میں آئینہ دیکھوں تو ترا عکس بھی دیکھوں
٭
کنوئیں بھی ختم ہوئے پنگھٹوں کا دور گیا
یہی سبب ہے کوئی تہہ میں جھانکتا نہ ملا
کشور کا شمار بھی اُن شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے عورت کی ریزہ ریزہ ہوتی ذات اور اُس کی سسکیوں اور کراہوں کو اپنے طرزِ احساس کے ذریعے آواز دی ہے۔ اگرچہ ادا جعفری اُردو کی وہ پہلی شاعرہ ہیں جنہوں نے عورت کے شاعرانہ وجود کا احساس دلایا مگر اُن کے مجموعۂ کلام میں ساز دھونڈتی رہی میں اُن کیفیات کی عکاسی نہیں تھی جن میں ہمارے مرد اساس معاشرے میں عورت ایک طرف تو سماج کے متعین کیے ہوئے نام نہاد اصول و ضوابط اور دوسری طرف اُس مجازی خدا کے رویے کے دو پاٹوں میں تمام عمر پستی ہے۔کشور کا مجموعہ ’’لبِ گویا‘‘ اگر میں ساز ڈھونڈتی رہی کی اگلی فکری کڑی تھا تو ’’گلیاں، دھوپ، دروازے‘‘ اُس سے آگے کی منزل تھی۔ اِس مجموعے میں غزلوںاورآزاد نظموں کے علاوہ ۳۰؍ نثری نظمیں بھی شامل تھیں۔ یوں اُنہوں نے ہئیت کے روایتی سانچے توڑ کر ظلم و جبر کی زنجیروں کو ایک مجاہدانہ انداز میں توڑا تھا۔ ’’لبِ گویا‘‘ بھی اہم کتاب تھی مگر اُس کے نمایاں ہونے کی اصل وجہ یہ بنی کہ اُنہوں نے عورت کی مظلومیت کی چو مکھی لڑائی لڑی۔ اُن کی نظم ’’میری مانو‘‘ میں عورت کی سوچ اور اظہار پر پہرے کو خوب ڈھنگ سے موضوع بنایا گیا ہے۔ اپنی نظم ’’میں کون ہوں‘‘ میں اُنہوں نے کس کس رنگ میں عورت کی مظلومیت بیان کی ہے۔نظم ’’اے کاتبِ تقدیر‘‘ میں اُنہوں نے تاریخ کی معروف خواتین کے نام تلمیحات کے طور پر استعمال کیے ہیں اور عورت کی ذات پر سماج اور معاشرت اور تقدیر کے ستم بیان کیے ہیں۔’’دوسری موت‘‘ میں نوجوان دوشیزاؤں کی سادگی اور بھول پن کو موضوع بنایا ہے کہ وہ پیار کے وعدوں پر اپنا آپ قربان کر دیتی اور لُٹ جاتی ہیں۔نظم ’’‘جاروب کش‘‘ میں شاعرہ نے ایک سوال اٹھایا ہے کہ کیا ایک مہترانی کے جذبات نہیں ہوتے کیا وہ بننا سنورنا نہیں چاہتی؟ اِس نظم کے چند آخری مصارع ملاحظہ کیجیے جو بہت مشہور ہوئے:
سورج مکھی کی طرح
گھر کے حاکم کی رضا پر
گردن گھماتے گھماتے
میری ریڑھ کی ہڈی چٹخ گئی ہے
٭
گھاس بھی مجھ جیسی ہے
پاؤں تلے بچھ کر ہی، زندگی کی مُراد پاتی ہے
مگر یہ بھیگ کر کس بات کی گواہی بنتی ہے
٭
نہ زمین کی نمو کی خواہش مرتی ہے
نہ عورت کی
کشور کی ابتدائی تعلیم و تربیت ادا جعفری اور زہرہ نگاہ سے مختلف ماحول میں ہوئی۔کشور ناہید 1940 میں بلند شہر (ہندوستان) میں ایک قدامت پسند سید گھرانے میں پیدا ہوئیں، جہاں خواتین کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا۔اگرچہ اُن کے نانا پڑھے لکھے انسان تھے، وکالت کرتے تھے مگر وہ بھی عورتوں کی تعلیم کے سخت خلاف تھے۔ایک دور میں تو اُنہیں برقع بھی پہنا دیا گیا۔کشور کی والدہ انہیں تعلیم دلوانا چاہتی تھیں مگر وہ خاندانی روایات سے مجبور تھیں۔ایسے قدامت پسند ماحول سے کشور کا بغاوت کرنا اور آگے بڑھ جانا یقینا حیران کُن ہے۔انہوں نے کالج میں داخلہ بھی لیا اور سالِ اول ہی سے شعر گوئی کا آغاز کر دیا۔ تعلیمی دور تقریری مقابلوں اور مشاعروں میں حصہ لیتی رہیں اور ان کا کلام ادبی رسائل میں چھپتا رہا۔ پنجاب یونیورسٹی میں معاشیات میں ایم اے کے دوسرے سال میں تھیں جب گھر والوں کو یوسف کامران کے ساتھ اُن کی دوستی کا علم ہوا۔ ایک ایسے گھرانے میں جہاں رشتے کے بھائیوں سے بات کرنا بھی ممنوع تھا وہاں یہ خبر قیامت سے کم نہیں تھی۔ اس جرم کی پاداش میں کشور اور یوسف کا نکاح پڑھوا دیا گیا۔ کشور کی شادی گو کہ پسند کی شادی تھی مگر اُن کے ازدواجی حالات کچھ ایسے خوشگوار نہ تھے۔ کشور اور یوسف کے دو صاحب زادے ہیں۔ یوسف کامران 1984میں انتقال کر گئے۔کشور ناہید پاکستان کی ادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ایک عرصے سے وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھ رہی ہیں۔ کشور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی سال تک ادبی جریدے ماہِ نو کی ادارت کے فرائض بخوبی انجام دیتی رہی ہیں۔ آج کل وہ اسلام آباد میں سکونت پزیر ہیں۔
کشور کے کلام کا انگریزی اور ہسپانوی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کشور نے خود بھی کئی کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کیا ہے اس کے علاوہ بچوں کے لیے بھی لکھتی رہی ہیں۔اُن کتب میںباقی ماندہ خواب،عورت زبانِ خلق سے زبانِ حال تک،عورت خواب اور خاک کے درمیان،خواتین افسانہ نگار 1930 سے 1990تک،زیتون،آ جاؤ افریقہ،بری عورت کی کتھا،بری عورت کے خطوط: نا زائیدہ بیٹی کے نام،سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ،بے نام مسافت،لبِ گویا،خیالی شخص سے مقابلہ،میں پہلے جنم میں رات تھی،سوختہ سامانیء دل،کلیات دشتِ قیس،میں لیلیٰ،لیلیٰ خالد،ورق ورق آئینہ،شناسائیاںرسوائیاں،وحشت اور بارود میں لپٹی ہوئی شاعری،عورت مرد کا رشتہ (مکالمے اور تحریریں)،زخم برداشتہ(پاکستان کہانی)،گمشدہ یادوں کی واپسی،کشور ناہید کی نوٹ بک،آباد خرابا،مٹھی بھر یادیں،گستاخی،(2001)the distance of a shout، the culture and civilization of Pakistan (2018)
٭

Related posts

Leave a Comment