اب سمندر سے کوئی خوف نہیں

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔

نوید صادق

اب سمندر سے کوئی خوف نہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالم لکھوں مگر کیا لکھوں … یہی کہ … لیکن ایسا بھی کیا… کالم لکھنا کوئی ایک روزہ کرکٹ میچ تو ہے نہیں کہ تکا چل گیا تو چل گیاورنہ ہار تو کہیں نہیں گئی … کرکٹ میچ … لیکن اب تو کرکٹ سے بھی ایک چڑ سی ہوتی جاتی ہے ۔ اب آپ دریافت کریں گے کہ اس چڑ ، اس بے زاری کا اصل محرک کیا ہے … لیکن یہ شخص جس نے حکومت چلانے کو کرکٹ میچ کی طرح چلانے، معاف کیجیے گا، کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ان صاحب کو جنھیں ہم قسمت کے مارے یہ اعزاز بخش بیٹھے کہ لو ہمارے وزیراعظم بن جاؤ، کرکٹ گراؤنڈ کی پچ ہی نہیں بھولتی، یہ آیا … وہ گیا، وہ گیا… یہ آیا۔ لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صاحب خود کچھ نہیں کرتے، ان کی اپنی کوئی مرضی ہے ہی نہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ ان کی چلنے ہی نہیں دی جاتی … ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جناب شبلی فراز … موصوف کا ذکر اتنی عزت سے محض اس لیے کر رہا ہوں کہ ہمارے محبوب شاعر احمد فراز مرحوم کے فرزند ہیں … خیر چھوڑیے اور صرف ان کے گذشتہ روز کے بیان پر غور کیجیے کہ جب تک حکومت ہے، وزیر مشیر آتے رہیں گے، جاتے رہیں گے۔ اور وہ جس کا نام مراد سعید ہے، اس شخص کے رویے سے لگتا ہے کہ اس کی تو اپنی کوئی مراد کبھی بر نہیں آ پائی سو انتقاماً ہم عوام کے ساتھ جھوٹ بولنے کا ٹھیکہ لیے بیٹھا ہے۔ تحریکِ انصاف کے بعض نام نہاد دانش ور کہتے پائے جاتے ہیں کہ بڑا دبنگ اور کھرا انسان ہے … پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون والے اس کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں سو جوں ہی موصوف اسمبلی میں خطاب … معذرت خواہ ہوں، ’’خطاب‘‘ خاصا خوبصورت اور بامعنی لفظ ہے، مراد سعید کے لیے جچتا نہیں اور جو لفظ اس شخص کے لیے دھیان کے قرطاس پر دستکیں دے رہا ہے … ایسی زبان کی اجازت مجھے نہ میری طبیعت دیتی ہے اور نہ اخبار کا وقار۔سو اس کو بھی چھوڑیے کہ موصوف اگر کسی بڑے سے پوچھ لیں کہ جس شخص کی بات کوئی سننا تک گوارا نہ کرے، اسے مہذب زبان میں کیا کہا جاتا ہے ویسے غیر مہذب زبان کی بات بھی کی جا سکتی ہے کہ یاسمین راشد ہمیں پہلے ہی جاہل قرار دے چکی ہیں اور جاہل تہذیب وہذیب کے چکر میں نہیں پڑتے، سیدھی دو ٹوک … لیکن آفرین ہے اس ٹولے پر … جس کے ذمے صرف دو کام ہیں۔ اول یہ کہ عوام کو بقول یاسمین راشد ’’جاہل عوام‘‘ کو یہ باور کروایا جاوے کہ وزیراعظم تمھارے غم میں گھلے جاتے ہیں، دن رات تمھاری بھلائی کے منصوبوں میں لگے رہتے ہیں، دن رات … دوم یہ کہ کس حریف کو کس طور پچھاڑنا ہے، کس طور میڈیا پر آ کر اس کے خلاف الٹی سیدھی ہانکنا ہے۔ سنا ہے قومی ہنماؤں کا اصل کام کچھ اور ہوتا ہے، لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لفظ ’’قومی رہنما‘‘ بھی ان لوگوں پر نہیں جچتا۔ ویسے تھوڑا غور کیا جائے تو یہ لفظ ان سے پہلے اقتدار میں آنے والوں پر بھی کہاں جچتا تھا۔
میں … میں ’’عوام‘‘ ہوں ، میرا کیا کام ہے … میرا کام ہے کہ ان بزعم خود’’ قومی رہنماؤں‘‘ کے جلسوں میں آؤں، ان کے لیے نعرے لگاؤں، ان کے لیے خون بہاؤں ۔ انھیں مسند پر بٹھاؤں اور اس کے بعد … اس کے بعد … توں کون تے میں کون…اپنے اپنے مفادات کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، اس دوڑ میں یہ سب اندر کھاتے، ایک بھی ہونا پڑے تو ہو جاتے ہیں اور میں یعنی عوام وہیں کا وہیں۔ ہر بار یہی ہوا، ہر بارشاید یوں ہی ہوتا رہے گا کہ مسلسل بے بسی کی کیفیت ایک نامختتم مایوسی کا روپ دھارے جا رہی ہے۔جناب باقی احمد پوری کا شعر یاد آ گیا:

یہ جو اب اہلِ زر بنے ہوئے ہیں
سب ہمیں لوٹ کر بنے ہوئے ہیں

اور اب حالات ہمیں جس موڑ پر لے آئے ہیں، اس کی ترجمانی اسی غزل کے ایک خوبصورت شعر میں ملاحظہ فرمائیے:

اب سمندر سے کوئی خوف نہیں
اب کنارے بھنور بنے ہوئے ہیں

جب بات یہاں تک آن پہنچے تو پھر سب جانتے ہیں ،کیا ہوتا ہے۔ لیکن میں بہت کمزور ہوں،’’ عوام‘‘ جو ہوا، سنا ہے دوسرے ملکوں میں عوام طاقت ور ہوتے ہیں اور حکمران کمزور لیکن پاکستان میں تو اس معاملے میں بھی گنگا الٹی ہی بہے جانے پر مصر ہے۔ گنگا سے تو مودی یاد آ گیا ، پانچ رافیل طیارے کیا ملے، موصوف آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں، ایک موصوف ہی پر کیا بس ہے، وہاں تو سنا ہے شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ جیسے اب پاکستان اور چین کی خیر نہیں، پانچ رافیل طیارے … پاکستان … چین … مودی اور ہم نواشایدیہ بھول جاتے ہیں رافیل طیارے کو اڑائے گا تو کوئی ’’ابھی نندن‘‘ ہی اور دنیا جانتی ہے کہ’’ ابھی نندن‘‘ جیسا مہان ہوا باز رافیل پر سوارہو یا گدھے پر، اس کی ’’پیشہ ورانہ تربیت‘‘ اسے خاک چٹوا کر ہی رہتی ہے۔ بات سرحد پار چلی گئی۔ واللہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا کہ میں نے تو اس کالم میں عوام بن کر لکھنا شروع کیا تھا۔ یہ موضوع کسی اگلے کالم پر موخر کرتے ہوئے واپسی کا راستہ لیتا ہوں کہ

بکھیڑے پہلے بھی کچھ کم نہیں تھے
مگر اس بار تو حد ہو گئی ہے

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اپنا دورِ حکومت محض شور شرابے کے سہارے گزار دینے کے چکر میں ہے۔ اب تو یوں بھی ان لوگوں کے ہاتھ ایک بات آ گئی ہے کہ کورونا کی وبا نہ آتی تو ہم یہ کر دیتے، ہم وہ کر دیتے۔ ایک صاحب تو یہاں تک کہتے پائے گئے کہ اگر کورونا کی وبا نہ آتی تو خان صاحب نے جو روڈ میپ دیا تھا ، اس پر چلتے چلتے سب ٹھیک ہونے ہی کو تھا۔ جی تو چاہا کہ ان صاحب سے روڈ میپ کے ہجے اور معانی دریافت کروں لیکن کوئی مصلحت آڑے آ گئی … عوام جو ہوا، کمزور جو ٹھیرا … ایک عذر یہ بھی بتایا بلکہ جتایا جاتا ہے کہ مافیاز کام نہیں کرنے دیتے۔ یہ بھی خوب رہی، بھائی صاحب! یہ مافیاز وغیرہ کو کنٹرول کرنا حکومت کا کام ہے کہ عوام کا۔ یہ حکومتی عہدے دار نجانے اپنے مفادات کے لیے طاقت ور اور عوامی مفادات کے حصول میں کمزور کیوں ہو جاتے ہیں: اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کی گئیں، واہ واہ کی صدائیں بلند ہوئیں کہ ایسا تو ہماری تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا لیکن پھر غباروں سے ہوا نکلتے بھی دیر نہیں لگی اور وہی عذر کہ مافیاز کام نہیں کرنے دیتے۔ آٹا، چینی، سبزی، گوشت، دودھ وغیرہ وغیرہ … سب مافیاز ہیں، اب ہماری حکومت میں اتنا دم نہیں کہ ان سب سے نپٹے ، کیونکہ ان مافیاز میں سے جوں ہی کسی کی جانچ پڑتال شروع ہوتی ہے، کوئی اپنا … ویسے ان اپنوں کی بھی خوب رہی، یہ وہ اپنے ہیں جو ہر دور میں برسرِ اقتدار جماعت کے’’ اپنے‘‘ ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ، تبدیلی آئی ہے، تبدیلی واقعی ہی آئی ہے اور وہ یہ کہ ہر صاحب اقتدار کے ’’اپنے‘‘ بن جانے والے مولانا فضل الرحمن ، عمران خان کے ’’اپنے‘‘ نہیں بن پائے۔ اب وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں زیادہ قصور کس کا ہے، عمران خان کا، یا مولانا فضل الرحمن کا … کچھ بھی ہو تبدیلی آئی ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment